امارتِ اسلامیہ افغانستان کا اعلیٰ سطحی وفد سعودی عرب میں موجود ہے جہاں وہ ترکی اور سعودی انٹیلی جنس اہلکاروں سے ملاقاتوں کے بعد مذاکراتی عمل شریک ہوئے۔ اسی طرح پاکستان کا اعلیٰ سطحی وفد بھی اس وقت ریاض میں موجود ہے۔ افغان ذرائع کے مطابق رحمت اللہ نجیب نے حالیہ مذاکراتی عمل میں امارتِ اسلامیہ افغانستان کے وفد کی سرپرستی کی جبکہ انس حقانی اور عبدالقھار بلخی بطورِ معاون شریک رہے۔۔
سعودی عرب میں ہونے والے پاک افغان مذاکرات میں امارتِ اسلامیہ افغانستان کے چھ ارکان اور پاکستان کے پانچ نمائندوں نے حصہ لیا۔ مصدقہ ذرائع کے مطابق فریقین کے مابین مذاکراتی عمل بمشکل 30 منٹ جاری رہنے کے بعد اپنے اختتام کو پہنچے۔ خیال رہے کہ افغان وفد گزشتہ روز ریاض پہنچا تھا جہاں انہوں نے عمرہ ادا کیا، پاک افغان مذاکرات میں شریک رہا اور اب افغانستان واپسی کے لیے روانہ ہو گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق پاک افغان مذاکرات میں گفت و شنید اور سخت جملوں کے تبادلے ہوئے، جس کے نتیجے میں مذاکرات بغیر کسی مثبت پیش رفت کے اختتام پذیر ہوگئے۔ افغان ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ شدید کشیدگی کے سبب بات چیت کو عارضی طور پر معطل کر دیا گیا ہے۔
ماہرین کے مطابق مذاکرات کا بنیادی مقصد دونوں ملکوں کے درمیان حالیہ کشیدگی کو کم کرنا اور باہمی تعلقات کے لیے فریم ورک قائم کرنا تھا۔ افغان وفد کی غیر سنجیدگی کے باعث مذاکراتی عمل زیادہ دیر تک نہ چل سکا محض 30 تک جاری رہنے کے بعد پاک افغان مذاکرات روک دیے گئے۔ مذاکراتی عمل میں سعودی حکام دونوں ممالک کے مابین مثبت اور دوستانہ ماحول قائم کرنے کی کوششوں میں مصروف رہے۔ مگر محض تیس منٹ تک جاری رہنے بعد مذاکراتی عمل اپنے اختتام کو پہنچا۔
دیکھا جائے تو مذکورہ کوششیں ایسے وقت میں سامنے آئی ہیں جب گزشتہ چند ہفتوں سے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی دیکھنے میں آئی تھی۔ سعودیہ عرب کی میزبانی میں ہونے والے مذکورہ مذاکرات خطے میں امن و استحکام کی طرف ایک اہم قدم تصور کیے جا رہے تھے لیکن محض ٓدھا گھنٹہ جاری رہنے کے بعد اپنے اختتام کو پہنچے۔
دیکھیں: پاک ترک کشیدگی کی افواہوں کی تردید، مذاکراتی عمل متاثر ہونے کے دعوے بے بنیاد