یورپی فلم فیسٹیول میں بدھ کے روز افغان نژاد جلاوطن صحافی خدیجہ امین کی دستاویزی فلم میرے بچے کہاں ہیں؟ پیش کی گئی۔ جس نے ناظرین کے سامنے افغانستان میں طالبان کی واپسی کے بعد خواتین کے ساتھ پیش آنے والے دردناک مناظرکی منطر کشی کی۔
مذکورہ فلم ایک افغان ماں کی سچی کہانی کی عکاسی کرتی ہے جو اگست 2021 میں کابل کے زوال کے بعد اسپین پہنچی۔ اسپین پہنچتے ہی اسے پتہ چلا کہ سرکاری ریکارڈ میں اسے مُردہ قرار دے دیا گیا ہے۔ یہ ایک ایسی سنگین سرکاری غلطی تھی جس نے اسے قانونی اور انسانی بحران میں دھکیل دیا۔ تین بچوں کی اس ماں کے پاس اپنی سرپرستی ثابت کرنے کے لیے کوئی قانونی دستاویزات نہیں ہیں، جبکہ اس کا شوہر جو افغانستان میں ہی زندگی بسر کر رہا ہے تقریباً ایک سال سے اسے بچوں سے رابطہ کرنے کی اجازت تک نہیں دے رہا۔
فلم میں اسکی قانونی جنگ، اپنی شناخت بحال کرنے کی کوششوں اور اپنے بچوں سے دوبارہ ملنے کی جدوجہد کو انتہائی جامع انداز میں پیش کیا گیا ہے۔
خدیجہ امین نے فلم کی نمائش سے قبل اپنے بیان میں کہا کہ مذکورہ فلم افغانستان کے زوال کے بعد سامنے آنے والی سب سے دل شکن انسانی کہانیوں میں سے ایک ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ منصوبہ تین سال سے زائد عرصے کی تحقیقی محنت کا نتیجہ ہے۔
خدیجہ امین نہ صرف فلم کی ہدایت کار اور راوی ہیں بلکہ اس کی مرکزی کہانی بھی وہی سناتی ہیں۔ وہ رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز اسپین کے بورڈ کی رکن، این جی او ہوپ فار فریڈم کی صدر، اسپین کے روزنامہ 20 منوتوس کی معاون صحافی اور ٹیلی فونیکا میڈیا گروپ سے بھی وابستہ ہیں۔
طالبان کی واپسی کے بعد درجنوں افغان خواتین صحافیوں کو دھمکیوں اور پابندیوں کے باعث ملک چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا۔ ان میں سے کئی جلاوطنی کی زندگی گزارنے کے باوجود افغان خواتین اور خاندانوں کے دکھ کو دنیا کے سامنے لانے کا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ خدیجہ امین کے مطابق یہ فلم ’’ان خاموش خواتین کے لیے خراجِ تحسین‘‘ ہے جن کے خاندان بکھر گئے، جن کی آوازیں دبائی گئیں اور جن کا دکھ اب بھی سرحدوں کے پار گونج رہا ہے۔
دیکھیں: عالمی سمپوزیم رپورٹ میں افغانستان میں صحافتی آزادی کی 550 سے زائد خلاف ورزیوں کی نشاندہی