گزشتہ سال بچوں کے خلاف گروہی جنسی جرائم کے 717 واقعات رپورٹ ہوئے جن میں سے 224 ملزمان سفید فام اور 22 مشتبہ افراد پاکستانی نژاد تھے جوکہ ٹیلی گراف کے مضمون کو مسترد کرتے ہیں

October 24, 2025

دنیا ایک بار افغانستان کو چھوڑ چکی ہے۔ مگر اگر اس بار بھی خاموش رہی، تو یہ خاموشی صرف صحافت نہیں، انصاف کی قبر بن جائے گی۔

October 24, 2025

ڈیورنڈ لائن کی بنیاد 1893 میں رکھی گئی، جب افغانستان کے امیر عبدالرحمن خان نے برطانوی ہندوستان کے سیکرٹری خارجہ سر مارٹیمر ڈیورنڈ سے سرحدی معاہدہ کیا۔ یہ معاہدہ دونوں فریقین کے درمیان انتظامی حدود طے کرنے کے لیے تھا، نہ کہ سیاسی خودمختاری کے لیے۔

October 24, 2025

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ بھارت کے دریاؤں پر ڈیم بنانے کے اقدامات سے مشابہ ہے، جس کے باعث خطے میں پانی کے بحران کا نیا تنازعہ جنم لے سکتا ہے۔

October 24, 2025

امریکی صدر ٹرمپ نے ٹائم میگزین کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا، میں نے عرب ممالک سے وعدہ کیا ہے۔ اگر اسرائیل نے یہ قدم اٹھایا تو اسے امریکی حمایت سے محروم ہونا پڑے گا

October 24, 2025

دورۂ مصر کے موقع پر فیلڈ مارشل عاصم منیر کی مصری وزیرِ دفاع عبدالمجید سقار اور مسلح افواج کے چیف آف اسٹاف احمد خلیفہ فتحی سے اہم ملاقات

October 24, 2025

بلوچستان لبریشن فرنٹ کے شہیک بلوچ نے بی وائے سی کے ’جبری گمشدگیوں‘ کے بیانیے کو بے نقاب کر دیا

شہیک بلوچ جیسے کیسز نے بلوچستان میں ’’جبری گمشدگی‘‘ کے بیانیے کو متنازع بنا دیا ہے۔ ایسے متعدد شواہد سامنے آئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض ’’لاپتہ‘‘ افراد خود مسلح تنظیموں میں شامل ہو گئے۔

1 min read

بلوچستان لبریشن فرنٹ کے شہیک بلوچ نے بی وائے سی کے ’جبری گمشدگیوں‘ کے بیانیے کو بے نقاب کر دیا

سترہ ستمبر 2025 کو ضلع خضدار میں سیکیورٹی فورسز کے ایک آپریشن میں شہیک بلوچ عرف عاشوب اور تین دیگر جنگجو مارے گئے۔

October 5, 2025

بلوچستان لبریشن فرنٹ کی جانب سے حال ہی میں ہلاک ہونے والے دہشت گرد شہیک بلوچ عرف عاشوب کی تصویر جاری کیے جانے کے بعد پاکستان میں لاپتہ افراد کے مسئلے پر نیا تنازع کھڑا ہو گیا ہے۔ اس واقعے نے یہ بحث پھر چھیڑ دی کہ بلوچستان میں ’’خودغائب‘‘ ہونے اور ’’جبری گمشدگی‘‘ کے درمیان فرق کہاں ختم ہوتا ہے۔

گزشتہ دو دہائیوں سے لاپتہ افراد کا مسئلہ پاکستان میں ایک حساس موضوع بنا ہوا ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنان، وکلا اور متاثرہ خاندان ریاستی اداروں پر الزامات لگاتے رہے ہیں، جب کہ مختلف اندرونی و بیرونی عناصر اس معاملے کو پاکستان مخالف مہم کے طور پر بھی استعمال کرتے رہے ہیں۔ عدالتیں بھی اس معاملے میں سرگرم رہی ہیں اور حکومت کو حل کے لیے اقدامات کرنے کی ہدایت دیتی رہی ہیں۔

شہیک بلوچ کا معاملہ

سترہ ستمبر 2025 کو ضلع خضدار میں سیکیورٹی فورسز کے ایک آپریشن میں شہیک بلوچ عرف عاشوب اور تین دیگر جنگجو مارے گئے۔

https://twitter.com/RedMarkar/status/1973070113151598815


پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق کارروائی ان جنگجوؤں کے خلاف کی گئی جو ’’بھارتی ایجنسیوں کے آلہ کار فتنہ الہند‘‘ سے منسلک تھے۔ فورسز کے مطابق ’’اسلحہ، بارود اور دھماکا خیز مواد برآمد کیا گیا جو دہشت گردی میں استعمال ہوتا رہا۔‘‘

دلچسپ امر یہ ہے کہ بلوچستان پوسٹ نے 29 مئی 2024 کو رپورٹ کیا تھا کہ شہیک بلوچ کو دیگر طلبہ کے ساتھ کوئٹہ سے مبینہ طور پر سادہ کپڑوں میں ملبوس افراد نے اٹھایا تھا۔ تین طلبہ کو رہا کر دیا گیا تھا جبکہ تین، بشمول شہیک بلوچ، لاپتہ رہے۔

بلوچ وائس فار جسٹس نے بھی ایک بیان میں اس گرفتاری کی تصدیق کی تھی۔

بیانیے میں تضاد

یہ پہلا موقع نہیں جب کوئی ’’لاپتہ‘‘ شخص بعد میں بطور جنگجو سامنے آیا ہو۔


جولائی 2024 میں سوہیب لغاری کا نام بھی ’’لاپتہ افراد‘‘ کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا، مگر بعد میں بلوچ لبریشن آرمی نے اس کی ہلاکت کی تصدیق بطور دہشت گرد کی۔

ان واقعات نے بلوچستان میں سرگرم بعض سرگرم کارکنان، خاص طور پر ماہرنگ بلوچ کے کردار پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ مبصرین کے مطابق اگر وہ واقعی انسانی حقوق کے لیے سرگرم ہیں، تو انہیں ایسے عناصر سے فاصلہ رکھنا چاہیے جو مسلح تنظیموں سے جڑے ہوں۔

انسانی حقوق کے علمبردار اور وکلا، جیسے ایمان مزاری اور جبران ناصر، طویل عرصے سے جبری گمشدگیوں کے مسئلے پر آواز بلند کرتے آئے ہیں اور اکثر ریاست کے کردار پر تنقید کرتے ہیں۔

تاہم، شہیک بلوچ کے معاملے میں — جسے بعض رپورٹس میں ایک اور نام سے ظاہر کیا گیا — سینئر صحافی حامد میر نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ وہ ایک فوٹوگرافر اور ویڈیومیکر تھا، جسے پہلے ’’غائب‘‘ کیا گیا اور بعد میں ہلاک کر دیا گیا۔

حامد میر نے اسے ’’ستم کا ایک عکس‘‘ قرار دیتے ہوئے نظام سے سوال کیا:
’’کیا اس نوجوان کو کبھی انصاف ملے گا؟‘‘

قانونی و عدالتی پیشرفت

بلوچستان حکومت نے قانون سازی کے ذریعے یہ لازم قرار دیا ہے کہ:

  • کسی بھی زیرِ حراست شخص کے خاندان کو اطلاع دی جائے۔
  • گرفتار شخص کو 24 گھنٹے میں عدالت میں پیش کیا جائے۔
  • قیدیوں کی طبی معائنہ رپورٹ ہفتہ وار جاری ہو۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس محسن اختر کیانی نے حکومت کو جبری گمشدگیوں کے متاثرین کے لیے معاوضہ پالیسی بنانے کی ہدایت کی۔ ایک کیس میں وزارتِ داخلہ نے لاپتہ شہری عمر عبداللہ کی بیوہ زینب زعیم خان کو 50 لاکھ روپے معاوضہ دینے کی منظوری دی۔

اعداد و شمار

اگست 2025 تک:

  • 10,618 کیسز درج ہوئے۔
  • 8,873 کیسز (83%) نمٹا دیے گئے۔
  • 1,745 کیسز تاحال زیرِ تفتیش ہیں۔

نتیجہ

شہیک بلوچ جیسے کیسز نے بلوچستان میں ’’جبری گمشدگی‘‘ کے بیانیے کو متنازع بنا دیا ہے۔ ایسے متعدد شواہد سامنے آئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض ’’لاپتہ‘‘ افراد خود مسلح تنظیموں میں شامل ہو گئے۔


یہ صورت حال نہ صرف انسانی حقوق کی تنظیموں کی ساکھ پر سوال اٹھاتی ہے بلکہ اصل متاثرین کے لیے انصاف کے راستے کو بھی پیچیدہ بناتی ہے۔

اصل حل صرف شفاف تحقیقات، جوابدہی اور حقیقی متاثرین کی نشاندہی سے ممکن ہے — تاکہ ’’لاپتہ افراد‘‘ کا معاملہ ایک بیانیہ نہیں بلکہ ایک حقیقت بن کر حل ہو۔

دیکھیں: بلوچستان کے مسائل کا واحد حل سیاسی اتفاق رائے ہے؛ بلاول بھٹو زرداری

متعلقہ مضامین

گزشتہ سال بچوں کے خلاف گروہی جنسی جرائم کے 717 واقعات رپورٹ ہوئے جن میں سے 224 ملزمان سفید فام اور 22 مشتبہ افراد پاکستانی نژاد تھے جوکہ ٹیلی گراف کے مضمون کو مسترد کرتے ہیں

October 24, 2025

دنیا ایک بار افغانستان کو چھوڑ چکی ہے۔ مگر اگر اس بار بھی خاموش رہی، تو یہ خاموشی صرف صحافت نہیں، انصاف کی قبر بن جائے گی۔

October 24, 2025

ڈیورنڈ لائن کی بنیاد 1893 میں رکھی گئی، جب افغانستان کے امیر عبدالرحمن خان نے برطانوی ہندوستان کے سیکرٹری خارجہ سر مارٹیمر ڈیورنڈ سے سرحدی معاہدہ کیا۔ یہ معاہدہ دونوں فریقین کے درمیان انتظامی حدود طے کرنے کے لیے تھا، نہ کہ سیاسی خودمختاری کے لیے۔

October 24, 2025

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ بھارت کے دریاؤں پر ڈیم بنانے کے اقدامات سے مشابہ ہے، جس کے باعث خطے میں پانی کے بحران کا نیا تنازعہ جنم لے سکتا ہے۔

October 24, 2025

رائے دیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *