بلوچستان سے تعلق رکھنے والی ایک نوجوان لیکچرار تاتیرہ اچکزئی نے حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا پر ایسا بیان دیا جس نے سیاسی اور تعلیمی دونوں حلقوں میں ہلچل پیدا کر دی ہے۔
تاتیرہ اچکزئی جو پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی کی صاحبزادی ہیں، انہوں نے پاکستان کے لیے ایسے الفاظ استعمال کیے جنہیں ناقدین نے “ریاست مخالف” قرار دیا ہے۔
اپنے سوشل میڈیا پوسٹ میں تاتیرہ اچکزئی نے لکھا ہے کہ “پاکستان اسرائیل کا ٹیمو سستا ورژنِ ہے، ایک منافق اور وحشی ریاست جو طاقتور ملکوں کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہے۔”
چند الفاظ پر مشتمل یہ جملے سوشل میڈیا پر ٹرینڈ بن گئے۔ اکثر صارفین نے اس بیان کو غیر ذمہ دارانہ قرار دیا، کچھ نے اسے آزادیِ اظہار کے دائرے میں سمجھا، جبکہ دیگر نے سوال اٹھایا کہ ایک سرکاری یونیورسٹی میں تدریسی ذمہ داری نبھانے والی شخصیت اس نوعیت کا بیان کیسے دے سکتی ہے۔
بلوچستان کی اس یونیورسٹی کے ترجمان نے تصدیق کی کہ تاتیرہ اچکزئی سے باضابطہ وضاحت طلب کر لی گئی ہے۔ ترجمان کے مطابق ادارے کے ملازمین کو سیاسی رائے کا حق ضرور ہے۔
محمود خان اچکزئی اور خاندان کا سیاسی رنگ
تاتیرہ اچکزئی کا تعلق ایک ایسے گھرانے سے ہے جو گزشتہ چار دہائیوں سے بلوچستان اور قومی سیاست میں سرگرم ہے۔ ان کے والد محمود خان اچکزئی اپنی واضح رائے اور ریاستی اداروں پر تنقید کے لیے مشہور ہیں۔
ستمبر 2024 میں قومی اسمبلی میں انہوں نے کہا تھا کہ میں اسٹبلشمنٹ سے بات کروں گا مگر رہنمائی نہیں لوں گا۔ پاکستان کو آئین کے تابع ہونا چاہیے، طاقت کے تابع نہیں۔
ان کے یہ جملے اُس وقت بھی بڑے مباحثے کا باعث بنے تھے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ تاتیرہ اچکزئی کے حالیہ بیان نے ان کے والد کے سیاسی بیانیے کو پُر تشدد اور غیر سفارتی رُخ دے دیا ہے۔
بلوچستان یونیورسٹیوں میں نظریاتی رجحانات
بلوچستان کی جامعات میں ماضی میں ایسے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جن میں بعض طلبہ و اساتذہ شدت پسند تنظیموں کے نظریاتی اثر میں آئے۔
یونیورسٹی آف تربت کی ایک طالبہ کے خودکش حملے میں ملوث ہونے اور ایک لیکچرار کے بی ایل اے سے مبینہ روابط کی خبریں اسی سمت اشارہ کرتی ہیں۔
سیکیورٹی اداروں کے مطابق ایسے گروہ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو ریاست مخالف نظریات کے ذریعے متاثر کرتے ہیں۔
اسی تناظر میں ماہرین کا کہنا ہے کہ تاتیرہ اچکزئی کا بیان محض ایک سیاسی رائے نہیں بلکہ اس فکری ماحول کی علامت ہے جو حالیہ برسوں میں تعلیمی اداروں میں پروان چڑھ رہا ہے۔
سیاسی ردعمل اور اثرات
پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے اندرونی ذرائع کے مطابق پارٹی قیادت اس معاملے پر محتاط ہے۔ ایک سینئر رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا ہے کہ تھٹّرا کی رائے ان کی ذاتی رائے ہے پارٹی کا مؤقف نہیں۔ لیکن اس سے ہماری پوزیشن مشکل ضرور ہوئی ہے۔
پی ٹی آئی، جس کے ساتھ محمود اچکزئی نے حالیہ مہینوں میں سیاسی قربت اختیار کی تھی، نے اس معاملے پر سرکاری مؤقف اختیار نہیں کیا، البتہ سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کے چند کارکنان نے اس بیان کو غیر ملکی بیانیے کی گونج قرار دیا۔
ایک بیان، کئی زاویے
تاتیرہ اچکزئی کا بیان بظاہر ایک شئیر کردہ پوسٹ تھی، مگر اس نے کئی بنیادی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ کیا یہ صرف سیاسی رائے تھی یا ریاست سے فکری بیزاری کا اظہار؟
کیا جامعات کے اساتذہ کو حساس قومی موضوعات پر رائے دینے کی مکمل آزادی ہونی چاہیے؟
اور کیا یہ رجحان اس فکری سمت کی نشاندہی کر رہا ہے جو بلوچستان کے نوجوانوں میں پنپ رہی ہے؟
تجزیہ کاروں کے مطابق “یہ محض ایک بیان نہیں بلکہ ایک علامت ہے کہ بلوچستان کے پڑھے لکھے طبقے میں ریاست سے فاصلہ بڑھ رہا ہے اور یہ فاصلہ اگر نظرانداز کیا گیا تو مکالمہ تصادم میں بدل سکتا ہے۔
اختتامیہ
معاملہ ایک امتحان بن گیا ہے تاتیرہ اچکزئی کے لیے، ان کے ادارے کے لیے، اور ان کی جماعت کے لیے بھی۔ یہ واقعہ یاد دلاتا ہے کہ آج کے پاکستان میں سیاسی گفتگو صرف پارلیمان یا جلسوں تک محدود نہیں رہی بلکہ اب ہر جملہ، ہر پوسٹ، اور ہر رائے ریاست اور شہری کے رشتے کا آئینہ بن چکی ہے۔
دیکھیں: بلوچستان لبریشن فرنٹ کے شہیک بلوچ نے بی وائے سی کے ’جبری گمشدگیوں‘ کے بیانیے کو بے نقاب کر دیا