ترکی نے بدھ کے روز بھارتی میڈیا کے تمام الزامات مسترد کردیے ہے جن میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ انقرہ کا بھارت میں ہونے والے دہشت گرد حملوں بالخصوص نئی دہلی میں ہونے والے بم دھماکے سے کوئی تعلق ہے۔ یہ موقف اس وقت سامنے آیا جب بھارتی حکام نے لال قلعہ کے قریب ہونے والا دھماکہ جس میں کم از کم 13 افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوئے ایک سنگین دہشت گرد واقعہ قرار دیا۔
نیوز 18 اور انڈیا ٹوڈے جیسے بھارتی چینلوں نے ان الزامات کو بہت ہوا دی، جس سے اس رجحان کو مزید تقویت ملی کہ بھارتی میڈیا اکثر اپنی رپورٹنگ کا نشانہ پاکستان اور اب کسی حد تک ترکی کو بنا لیتا ہے چاہے تحقیقات ابھی ابتدائی مراحل میں ہی کیوں نہ ہوں۔ ماہرین کے مطابق یہ رویہ داخلی سیکیورٹی کی ناکامیوں کو چھپانے اور عوامی رائے کو مخصوص سیاسی سانچے میں ڈھالنے کی ایک منظم حکمت عملی کا حصہ ہے۔
ترکی نے الزامات کو حقائق سے منافی اور بے بنیاد پروپیگنڈا قرار دیا
اپنے سرکاری بیان میں ترکی کی ڈائریکٹوریٹ آف کمیونیکیشنز جو کہ گمراہ کن اور بے بنیاد خبروں کے خلاف ڈی ایم ایم کے نام سے کام کرتی ہے نے بھارتی میڈیا کے دعوؤں کو بد نیتی پر مبنی جھوٹ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کا مقصد انقرہ کی ساکھ کو مجروح کرنا ہے نہ کہ حقائق پر مبنی کوئی خبر یا اطلاع دینا ہے۔
ڈائریکٹوریٹ نے اس بات کی سختی سے تردید کی کہ ترکی نے مبینہ دہشت گردوں کو کوئی سفارتی، مالی یا لاجسٹکی سہارا فراہم کیا ہو۔ مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ترکی دنیا میں کہیں بھی، کسی بھی گروہ کی جانب سے کی جانے والی دہشت گردی کی مذمت کرتا ہے۔
یہ اقوام متحدہ کی عالمی انسدادِ دہشت گردی کی حکمت عملی اور نیٹو کے انسدادِ دہشت گردی ڈھانچے کا فعال رکن ہے۔
بھارتی میڈیا کے یہ الزامات حقائق نہیں بلکہ ایک سیاسی بیانیہ اور نفرت انگیز تشکیل دیتے ہیں۔
مرکز نے بھارتی میڈیا کی جھوٹی رپورٹوں کے اسکرین شاٹس بھی جاری کیے ہیں جن پر سرخ نشانات لگائے گئے ہیں تاکہ یہ واضح کیا جا سکے کہ انقرہ انہیں یکسر بے بنیاد سمجھتا ہے۔
بھارت میں وائٹ کوٹ دہشت گرد نیٹ ورک کے خلاف تحقیقات جاری
تحقیقات کے دوران بھارتی حکام نے مبینہ خودکش بمبار کی شناخت ڈاکٹر عمر ان نبی کے طور پر کی ہے جو ہریانہ کی الفلاح یونیورسٹی سے وابستہ ایک کشمیری النسل ڈاکٹر اور پروفیسر ہیں۔
بھارتی میڈیا نے اس نیٹ ورک کو وائٹ کوٹ ٹیرر ماڈیول کا نام دیا ہے جس میں متعدد اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد، بالخصوص ڈاکٹرز شامل ہیں جن پر الزام ہے کہ انہوں نے بم بنانے اور مختلف شہروں میں ممنظم حملوں کی منصوبہ بندی کی کوشش کی ہے۔
پولیس نے یو اے پی اے کے تحت مقدمہ درج کرکے معاملہ نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی کے حوالے کر دیا ہے۔
اب تک ملنے والے شواہد بنیادی طور پر ایک مقامی شدت پسند گروہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں، جو یونیورسٹی ہاسٹلوں کے قرب و جوار میں سرگرم تھا۔
تاہم بھارتی میڈیا کی رپورٹنگ اس کے برعکس ہے۔ بنا کسی ثبوت کے پاکستان اور ترکی کے مبینہ روابط پر بے جا زور دیتی رہی ہے۔
پاکستان اور ترکی کے مبینہ روابط کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے
بھارتی میڈیا نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ یہ نیٹ ورک ممنوعہ تنظیموں جیش محمد اور انصار غزوۃ الہند سے منسلک تھا اور دہلی دھماکے کو ایک انتقامی کارروائی کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق عکاشہ نامی ایک مبینہ ہینڈلر جس کے بارے میں بھارتی میڈیا کا کہنا ہے کہ وہ انقرہ میں مقیم ہے، اس ساری کہانی کا محور بنا دیا گیا ہے۔
بھارتی میڈیا کا دعویٰ ہے کہ ڈاکٹر عمر اور ان کے ساتھی 2021-2022 کے دوران ترکی گئے تھے اور انہوں نے وہاں مبینہ طور پر تربیت حاصل کی۔
ترکی نے اس دعوے کو سراسر جھوٹ قرار دیا ہے جبکہ کوئی بھی آزاد ذریعہ ان باتوں کی تصدیق نہیں کرتا۔
ماہرین کے مطابق حقائق یا تحقیقات کے بغیر غیر ملکی عناصر کو مورد الزام ٹھہرانا بھارت کی پرانی روش رہی ہے جس کے ذریعے وہ اپنے اندرونی تنازعات کو ہمیشہ بیرونی سازش سے جوڑنے کی کوشش کرتا ہے۔
آپریشن سندور: بھارت کی ترکی مخالف مہم کی بنیاد
کشمیر کے معاملے پر ترکی کے دوٹوک موقف خاص طور پر 2019 میں آئین کے آرٹیکل 370 کے خاتمے پر اس کی کھلی تنقید کے بعد سے بھارت نے ایک وسیع سفارتی اور میڈیا مہم کا آغاز کیا جسے مبصرین “آپریشن سندور” کا نام دیتے ہیں۔
اس مہم کے نتیجے میں بھارتی میڈیا اور سوشل میڈیا پر ترکی مخالف بیانیوں میں نمایاں اضافہ ہوا۔
ترکی کو بھی پاکستان کی طرح ایک منظم دشمن کی شکل میں پیش کرنے کی کوششیں کی گئیں۔
یہ وہی طریقہ کار ہے جسے بھارت برسوں سے پاکستان کے خلاف استعمال کرتا آیا ہے۔
سیاسی مقاصد کے لیے گھڑا گیا مصنوعی بیانیہ
اگرچہ دہلی دھماکے کی تحقیقات ابھی تک مکمل نہیں ہوئی ہیں لیکن اب تک کے شواہد ایک مقامی شدت پسند نیٹ ورک کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ ترکی کی واضح تردید جسے عالمی سطح پر انسدادِ دہشت گردی میں اس کے فعال کردار سے مزید تقویت ملتی ہے بھارتی میڈیا کے الزامات کو مزید غیر معتبر بنا دیتی ہے۔
اس کے باوجود یہ الزامات اس لیے برقرار ہیں کہ وہ سیاسی طور پر مفید ہیں
بھارت، پاکستان اور ترکی کو دہشت گردی کے سرپرست کے طور پر پیش کرکے اپنے داخلی سیکیورٹی بیانیے کو مضبوط کرتا ہے۔
مقامی انٹیلی جنس کی ناکامیوں سے توجہ ہٹاتا ہے۔
بیرونی دشمن کا ایک ایسا تصور قائم کرتا ہے جو اس کے سیاسی حلقوں میں مقبول ہے۔
ابھرتا ہوا نمونہ بالکل واضح ہے جب بھی بھارت میں کوئی داخلی بحران پیدا ہوتا ہے بھارتی میڈیا فوراً ہی جغرافیائی سیاسی طور پر نشانہ بنانے کے لیے قربانی کے بکرے تلاش کرنے لگتا ہے۔ پاکستان کے لیے تو یہ بیانیہ پرانا ہے لیکن ترکی اب اس حکمت عملی کا نیا ہدف بن چکا ہے۔