سوڈان کی سماجی بہبود کی وزیرِ مملکت سلمیٰ اسحاق نے انکشاف کیا ہے کہ شمالی دارفور کے مرکزی شہر الفاشر میں ریپڈ سپورٹ فورسز کے داخل ہونے کے بعد انسانی المیے کی نئی لہر دیکھنے میں آئی ہے۔ وزیر کے مطابق، صرف دو دن کے دوران 300 سے زائد خواتین کو قتل کیا گیا، جب کہ متعدد خواتین کو جنسی تشدد، اجتماعی زیادتی اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
سلمیٰ اسحاق نے بتایا کہ جنگجوؤں نے شہر میں داخل ہوتے ہی گھروں، پناہ گاہوں اور اسپتالوں پر حملے کیے، اور عام شہریوں کو نشانہ بنایا۔ ان کے بقول، “الفاشر میں انسانی جانوں کا ضیاع ناقابلِ تصور ہے، عورتیں اور بچے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔”
انہوں نے مزید کہا کہ جو شہری الفاشر سے تاویلا کی جانب فرار ہونے کی کوشش کر رہے تھے، انہیں راستے میں سنگین خطرات کا سامنا کرنا پڑا۔ مقامی باشندے اس راستے کو اب “موت کی سڑک” کے نام سے یاد کرتے ہیں، کیونکہ وہاں سے گزرنے والوں پر حملوں، لوٹ مار اور خواتین کے اغوا کے متعدد واقعات سامنے آئے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق، ریپڈ سپورٹ فورسز نے 26 اکتوبر کو الفاشر کا کنٹرول سنبھال لیا، جب کہ سوڈانی فوج کے ساتھ جھڑپیں تاحال جاری ہیں۔ آر ایس ایف کا کہنا ہے کہ وہ فوج کے زیرِ قبضہ “اہم ٹھکانوں” کو آزاد کر رہی ہے، تاہم انسانی حقوق کی تنظیموں کا مؤقف ہے کہ شہریوں کو نشانہ بنانا جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔
اقوامِ متحدہ اور مقامی ذرائع کے مطابق، اپریل 2023 میں شروع ہونے والے تنازع کے بعد سے 20 ہزار سے زائد افراد ہلاک اور تقریباً 1 کروڑ 50 لاکھ افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ اقوامِ متحدہ نے متنبہ کیا ہے کہ اگر حالات پر قابو نہ پایا گیا تو دارفور میں نسل کشی جیسے واقعات دوبارہ رونما ہو سکتے ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوری طور پر انسانی امداد کی فراہمی اور متاثرہ علاقوں میں جنگ بندی کے لیے دباؤ ڈالے۔ دوسری جانب، سوڈانی عبوری حکومت نے اقوامِ متحدہ سے تحقیقات میں مدد کی درخواست کی ہے تاکہ RSF کے مبینہ جرائم کو عالمی سطح پر اجاگر کیا جا سکے۔