بِاَيِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ
مکہ کے آس پاس کچھ جاہل اور اجڈ بدو قبائل میں یہ رسم تھی کہ وہ بیٹیوں کو زندہ درگور کر دیتے تھے۔ یہ اتنی قبیح رسم تھی کہ اس زمانے کے دوسرے قبائل جیسے کے قریش وغیرہ تک اس کو سخت نا پسند کرتے تھے۔
اللہ نے یہ آیات اتاریں کہ یہ بچیاں قیامت کے دن ان ظالموں سے سوال کریں گی کہ ہمیں کس جرم کی پاداش میں قتل کیا تھا؟
ہندوؤں میں بھی انتہائی بھیانک رسم و رواج رہے ہیں۔ کچھ ایسی خبریں اور ویڈیوز موجود ہیں جس میں نوزائیدہ بچی کو پیروں تلے کچل کر مار دینے سے وہ اپنے دھرم کی سیوا کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ستی کرنے کی رسم بھی ایسے ہی چلتی رہی ہے۔
عیسائیت کی چرچ کے عروج کے دور میں بھی ایسی تمام خواتین جن کو پڑھنے کا شوق تھا انھیں چڑیل یا وچ کہہ کر زندہ جلا دیا جاتا تھا۔
غرض دنیا کی تاریخ میں سب سے رذیل، سب سے زیادہ جاہل قبیلے، معاشرے یا انسانوں کے گروہ ایسی قبیح حرکتیں کرتے رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔
اب ان نام نہاد مسلمانوں کو دیکھیں۔
کہیں پر ونی کی رسم ہے، کہیں ابھی بھی زندہ درگور کرنے کی، جی ہاں زندہ دفن کر دینے کی رسم موجود ہے۔ کہیں بچیوں کو مردوں کے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کے لئیے دوسروں کے آگے بیچ دیا جاتا ہے اور اسے جرگہ کا حکم کہہ کر غیرت مند بنانے کی کوشش کی جاتی ہے تو کہیں بچیوں کو ساری زندگی بوجھ سمجھا جاتا ہے کہ اب یہ پیدا ہوگئی ہیں تو اب ان کو ساری زندگی پالو اور پھر شادی کرو اور پھر داماد کو بھگتو۔
غور کیجئیے۔ ایک طرف صرف ایک قرآن کی آیت ہے۔ جو ان تمام ظالموں کے منہ پر کالک مل رہی ہے۔ اور دوسرے طرف نوع انسان کے ظلم کی تاریخ ہے جسے بڑے فخر سے آج کے جاہل نام نہاد مسلمانوں نے صرف اس لئیے اپنا لیا ہے تا کہ وہ خود کو غیرت مند کہلوانے کا دعویٰ کر سکیں۔ یہ بھول گئے ہیں کہ یہ مظلومین قیامت کے دن ان کے سامنے یہ سوال کئیے کھڑی ہوں گی۔ اور وہاں ہم سب کا شہنشاہ، سب سے بڑا غیرت مند ان سے جواب طلب کرے گا اور یہ اس وقت صرف اور صرف وقت کو کوسیں گے جب ان کو ان کی جھوٹی مردانگی نے اس طرح کا ظلم کرنے پر آمادہ کیا تھا۔
یہ تصویر اور اس سے جڑی ویڈیو یہ بھی بتاتی ہے کہ اس تمام ظلم کو کسی ایک گروہ کے ساتھ نے مخصوص کریں۔ یہ جہلا ہر جگہ، ہر وقت ہمارے درمیان موجود ہیں ان کو پہچانیں، ان کو خود سے الگ کیجئیے۔ اس سے پہلے کہ یہ آپ میں بھی اس جہالت کا زہر انڈیل دیں۔