اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80ویں اجلاس میں پاکستان کے سرکاری وفد میں ایک خاتون کی موجودگی پر شدید تنازع کھڑا ہوگیا ہے۔ یہ خاتون برطانوی نژاد پاکستانی تجزیہ کار اور صحافی ڈاکٹر شمع جونیجو ہیں، جو ماضی میں اسرائیل کی حمایت میں بیانات دینے کے باعث متنازع سمجھی جاتی ہیں۔
ان کی موجودگی پر نہ صرف سوشل میڈیا پر بحث چھڑ گئی بلکہ سیاسی و صحافتی حلقوں میں بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ ایسی شخصیت کو کس بنیاد پر وفد کا حصہ بنایا گیا۔
تصویر نے سوالات کھڑے کیے
صورتحال اس وقت تنازع میں بدلی جب وزیر دفاع خواجہ آصف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایک اجلاس میں خطاب کر رہے تھے اور شمع جونیجو ان کے بالکل پیچھے والی نشست پر بیٹھی ہوئی نظر آئیں۔ یہ تصویر منظرِ عام پر آتے ہی وائرل ہوگئی اور صارفین نے حکومتِ پاکستان کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔
ناقدین کا کہنا تھا کہ ایسے حساس موقع پر اسرائیل نواز خیالات رکھنے والی شخصیت کی موجودگی پاکستان کے بیانیے کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔
شمع جونیجو کون ہیں؟
ڈاکٹر شمع جونیجو ایک برطانوی نژاد پاکستانی وکیل، سیاسی و دفاعی تجزیہ کار اور صحافی ہیں۔ انہوں نے عسکری اخلاقیات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے اور صحافتی خدمات پر حکومتِ پاکستان سے تمغہ امتیاز بھی لے چکی ہیں۔ تاہم ان کی پہچان ہمیشہ متنازع رہی ہے کیونکہ وہ اکثر سوشل میڈیا پر پاکستان کی خارجہ اور دفاعی پالیسی پر متنازع تبصرے کرتی رہی ہیں۔
ماضی میں شمع جونیجو نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی حمایت کی، اسرائیلی ٹیکنالوجی کی تعریف کی اور حتیٰ کہ اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن یاہو سے ملاقات کو اپنے لیے ’’اعزاز‘‘ قرار دیا تھا۔ یہی باتیں انہیں پاکستانی عوام اور میڈیا میں ایک متنازع شخصیت کے طور پر سامنے لاتی ہیں۔

وزیر دفاع خواجہ آصف کا ردعمل
جب ان کی تصویر منظر عام پر آئی تو وزیر دفاع خواجہ آصف نے سوشل میڈیا پر وضاحت جاری کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اس بارے میں کچھ علم نہیں تھا کہ ان کے پیچھے کون بیٹھا ہوگا۔
سلامتی کونسل میں یہ تقریر وزیر اعظم کیونکہ مصروف تھے اسلئے انکی جگہ یہ تقریر میں نے کی۔ یہ خاتون یا کس نے میرے پیچھے بیٹھنا ھے دفتر خارجہ کی صوابدید و اختیار تھا اور ھے۰ فلسطین کے مسئلہ کے ساتھ میرا 60 سال سے جذباتی لگاؤ اور کمٹمنٹ ھے۔ ابو ظہبی بینک میں ملازمت کے دوران فلسطینی… pic.twitter.com/FkyCHz4fYY
— Khawaja M. Asif (@KhawajaMAsif) September 26, 2025
انہوں نے کہا کہ ’’یہ فیصلہ دفتر خارجہ کا ہوتا ہے کہ کس کو کہاں بٹھایا جائے۔‘‘ ساتھ ہی انہوں نے واضح کیا کہ فلسطین کے ساتھ ان کی کمٹمنٹ ساٹھ سال پرانی ہے اور اسرائیل اور صیہونیت پر ان کے خیالات نفرت کے سوا کچھ نہیں۔
دفتر خارجہ کا مؤقف
دفتر خارجہ نے بھی اس معاملے پر وضاحت جاری کرتے ہوئے کہا کہ شمع جونیجو کا نام اس سرکاری وفد کی فہرست میں شامل ہی نہیں تھا جو جنرل اسمبلی اجلاس کے لیے بھیجی گئی تھی۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ ’’متعلقہ خاتون کا نام اس سرٹیفکیٹ میں شامل نہیں تھا جس پر نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار کے دستخط تھے، لہٰذا ان کی نشست کو کسی سرکاری منظوری کی پشت پناہی حاصل نہیں تھی۔‘‘
The Ministry of Foreign Affairs has noted queries regarding the seating of a certain individual behind the Defence Minister at a recent meeting of the UNSC. To clarify, the individual in question was not listed in the official letter of credence for the Pakistan delegation to the… https://t.co/60w0te9hLX
— Ministry of Foreign Affairs – Pakistan (@ForeignOfficePk) September 26, 2025
شمع جونیجو کے دعوے
دوسری جانب شمع جونیجو نے خود پر لگنے والے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ وہ وزیراعظم کے ساتھ ہی جہاز میں نیویارک گئیں اور انہیں وزیراعظم کی تقاریر لکھنے کا کام بھی سونپا گیا تھا۔

انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ان کی رسائی خفیہ دستاویزات تک تھی۔ تاہم یہ دعوے حکومتی وضاحتوں سے متصادم نظر آتے ہیں، جس سے تنازع مزید بڑھ گیا ہے۔
ڈاکٹر شمع جونیجو نے خود پر ہونے والی تنقید کا جواب دیتے ہوئے لکھا کہ ’انڈین اور اسرائیلی لابی کا یہ سارا مقصد وزیراعظم صاحب کی اقوام متحدہ میں تاریخی تقریر اور صدر ٹرمپ سے ملاقات سے توجہ ہٹانا ہے‘۔

سیاسی و صحافتی حلقوں کا ردعمل
کئی صحافیوں اور سیاستدانوں نے اس معاملے پر شدید غم و غصہ ظاہر کیا۔ سینئر صحافی عائشہ صدیقہ نے کہا کہ ’’وزیراعظم شہباز شریف کو کوئی پرواہ نہیں کہ شمع جونیجو نیتن یاہو کے بارے میں کیا رائے رکھتی ہیں۔‘‘ سابق سینیٹر مشتاق احمد خان نے اسے ’’پاکستانی عوام کی توہین‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل نواز شخصیت کو عالمی فورم پر بٹھانا ناقابلِ قبول ہے۔

صحافی مہوش قماس خان نے طنزیہ انداز میں خواجہ آصف کے انکار کے جواب میں ان کی شمع جونیجو کے ساتھ تصاویر شیئر کیں اور کہا: ’’خواجہ آصف شمع جونیجو کو نہیں جانتے؟‘‘ یہ رویہ حکومتی وضاحتوں کو مزید مشکوک بنا رہا ہے۔
اسرائیل پر شمع جونیجو کے ماضی کے بیانات
شمع جونیجو کے ماضی کے بیانات اور پوسٹس اس تنازع کو مزید سنگین بنا رہے ہیں۔ 2022 میں ایک پوسٹ میں انہوں نے کہا تھا کہ اگر وہ نتن یاہو سے ملیں تو اس تصویر کو اپنی پروفائل پر لگائیں گی۔ انہوں نے اسرائیلی آبپاشی ٹیکنالوجی کو سندھ اور جنوبی پنجاب کے لیے ’’مثالی‘‘ قرار دیا تھا۔
ان بیانات نے پاکستانی عوام کے غم و غصے کو مزید بڑھا دیا ہے کیونکہ پاکستان نے ہمیشہ اسرائیل کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے اور فلسطینی عوام کے حق میں واضح مؤقف اپنایا ہے۔
پاکستان کا سرکاری مؤقف اور عوامی حساسیت
پاکستان کے آئین اور پالیسی میں واضح لکھا ہے کہ ملک اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا۔ پاکستانی پاسپورٹ پر یہ شق درج ہے کہ یہ ’’تمام ممالک کے لیے کارآمد ہے سوائے اسرائیل کے۔‘‘ ایسے میں اسرائیل نواز خیالات رکھنے والی شخصیت کا عالمی پلیٹ فارم پر پاکستان کے سرکاری وفد میں شامل ہونا عوامی جذبات سے کھیلنے کے مترادف سمجھا جا رہا ہے۔
شمع جونیجو کی اقوام متحدہ میں موجودگی نے ایک نئے تنازع کو جنم دیا ہے جس نے حکومت اور دفتر خارجہ دونوں کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ وزیر دفاع اور دفتر خارجہ نے لاتعلقی ظاہر کی ہے لیکن ان کے بیانات تضاد کا شکار ہیں، جبکہ شمع جونیجو کے دعوے اس تضاد کو مزید نمایاں کر رہے ہیں۔
یہ معاملہ اس حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ پاکستان کو اپنے عالمی وفود میں شامل افراد کی جانچ پڑتال میں زیادہ احتیاط برتنی چاہیے۔ ایسی شخصیات جن کے ماضی کے بیانات اور نظریات پاکستان کے ریاستی مؤقف سے متصادم ہوں، انہیں کسی بھی صورت عالمی پلیٹ فارمز پر نمائندگی کا موقع نہیں دیا جانا چاہیے۔
اسرائیل کے حق میں نرم رویہ رکھنے والے افراد کو سرکاری وفود میں شامل کرنا نہ صرف عوامی حساسیت کو مجروح کرتا ہے بلکہ پاکستان کے تاریخی اور اصولی مؤقف کو بھی نقصان پہنچا سکتا ہے۔
دیکھیں: نیو یارک میں اقوام متحدہ کا 80واں اجلاس؛ شہباز شریف کی شرکت، عالمی رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں