پاک فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کےترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے جمعے کو پشاور میں ایک پریس کانفرنس کے دوران خیبرپختونخوا میں جاری دہشت گردی کے پس منظر اور اس کے تدارک کے بارے میں تفصیلی بریفنگ دی۔ انہوں نے واضح کیا کہ صوبے میں تشدد اور جان لیوا واقعات کے پیچھے پانچ بنیادی عوامل کارفرما ہیں جن کا فوری نوٹس لینا لازمی ہے اور جن کے خلاف یکسو مؤقف اختیار کیا جانا چاہیے۔
1۔نیشنل ایکشن پلان کے نقاط پر عمل نہ ہونا
— HTN Urdu (@htnurdu) October 10, 2025
2۔دہشتگردی کے معاملے پر سیاست کرنا اور
قوم کو الجھانا
3۔بھارت کا افغانستان کو پاکستان کے خلاف بیس کے طورپر استعمال کرنا
4۔افغانستان میں دہشتگردوں کی محفوظ پناہ گاہیں اور جدید ہتھیاروں کی فراہمی
5۔دہشتگردی کے پیچھے ٹیررکرائم نیکسس کی… pic.twitter.com/QWIvP6WhQl
نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد نہ ہونا
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ایک بار جب نیشنل ایکشن پلان پر ملک میں اتفاق رائے قائم ہوا تھا تو اس کے مؤثر نفاذ سے دہشت گردی میں کمی لائی جا سکتی تھی، مگر عمل درآمد میں کوتاہیاں اور تاخیر نے اس مقصد کو بری طرح متاثر کیا۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ نیشنل ایکشن پلان کے تقاضے اگر پوری طرح پورے کیے جاتے تو خیبرپختونخوا میں جو خونی حالات بدستور جاری ہیں، ان کی شدت میں خاطرخواہ کمی ممکن تھی۔
دہشتگردی پر سیاست اور عوامی ذہن کو الجھانا
آئی ایس پی آر سربراہ نے خبردار کیا کہ دہشت گردی کے حساس مسئلے پر سیاسی مقاصد کے لیے بھونڈا بیانیہ سازی خطرناک ثابت ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بعض حلقے عوام کو الجھا کر ریاستی آپریشنز کے خلاف پروپیگنڈا کرتے رہے، جس کا خمیازہ سوسائٹی اور فورسز دونوں برداشت کر رہی ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے واضح کیا کہ دہشت گردی کے معاملے پر سیاسی تماشا قابلِ قبول نہیں ہوگا اور قومی مفاد میں یکجہتی ناگزیر ہے۔
بھارت کا افغانستان کو بیس کے طور پر استعمال کرنے کا الزام
ترجمان نے ایک بار پھر دعوی کیا کہ بھارت افغانستان کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی اور پروکسی جنگ کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے شواہد موجود ہیں جن سے یہ واضح ہوتا ہے کہ کچھ بیرونی عناصر افغان سرزمین پر بیٹھ کر پاکستان کے استحکام کے خلاف سرگرم ہیں۔ ان دعووں کے ساتھ انہوں نے عالمی برادری کے سامنے بھی سوال اُٹھایا کہ خطے کی پائیدار سلامتی کے لیے کون سی حکمتِ عملی اختیار کی جائے گی۔
افغانستان میں محفوظ پناہ گاہیں اور جدید ہتھیاروں کی فراہمی
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ امریکی انخلا کے بعد افغانستان میں لاکھوں ڈالر اور جدید اسلحہ بچ کر رہ گیا، جن میں سے ایک بڑا حصہ مبینہ طور پر انتہا پسند عناصر تک پہنچ گیا۔ انہوں نے بطورِ مثال ذکر کیا کہ 7.2 بلین ڈالر کے ہتھیار اس عرصے میں باقی رہ گئے تھے اور ہر آپریشن کے بعد فورسز کو ملنے والے امریکی ہتھیار اس خدشے کی تصدیق کرتے ہیں۔
دہشتگردی کے پیچھے ٹیرر کرائم نیکسس اور سیاسی پشت پناہی
ترجمان نے واضح کیا کہ خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کا منظرنامہ محض غیر منظم شدت پسندی نہیں بلکہ ایک منظم مجرمانہ و سیاسی گٹھ جوڑ ہے۔ انہوں نے کہا کہ بعض حلقے مقامی اور سیاسی سطح پر دہشت گردوں کو جگہ دیتے رہے، ان کی پشت پناہی کی گئی، اور بدنام کن بیانیات کے ذریعے عوامی رائے کو موڑنے کی کوشش کی گئی جس کا خمیازہ عوام ادا کر رہے ہیں۔
شماریات اور آپریشنل کارکردگی
ڈی جی آئی ایس پی آر نے 2024 اور 2025 کے آپریشنل اعدادوشمار بھی پیش کیے۔ 2024 میں خیبرپختونخوا میں 1,435 انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کیے گئے جن میں 769 دہشت گرد ہلاک ہوئے، اسی دوران صوبے میں 577 افراد شہید ہوئے جن میں 272 پاک فوج و ایف سی اہلکار، 140 پولیس اہلکار اور 165 معصوم شہری شامل تھے۔ 2025 کے سلسلے میں لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے کہا کہ 15 ستمبر تک ملک گیر سطح پر 10,115 انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کیے جا چکے ہیں جن میں قریب نو سو ستر (970) دہشت گرد ہلاک ہوئے جبکہ پاک فوج کے 311 جوان جان کی بازی ہار گئے۔
افواج اور عوام کی قربانیوں کو خراجِ عقیدت
انہوں نے خیبرپختونخوا کے عوام اور فورسز کی قربانیوں کو خراجِ عقیدت پیش کیا اور کہا کہ صوبے کے بہادر شہریوں نے دہشت گردی کے خلاف بھرپور مزاحمت کی۔ ان کے بقول حکومت اور ریاستی اداروں کو اس حقیقت کا اعتراف کرنا ہوگا کہ امن کی بحالی میں معاشی، انتظامی اور قانونی اصلاحات کے علاوہ سخت سکیورٹی اقدامات بھی ناگزیر ہیں۔
مہاجرین کی واپسی اور پالیسی پر سوالات
ڈی جی آئی ایس پی آر نے افغان مہاجرین کے مسئلے پر بھی سوال اٹھایا اور کہا کہ 2014 اور 2021 میں اس بارے میں فیصلے موجود تھے مگر بعد ازاں اس پالیسی کو بعض حلقوں نے زیرِ بحث لا کر تاخیر پیدا کی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس نوع کی مخمصوں نے دہشت گردی کے خاتمے کی کوششوں میں خلل ڈالا ہے اور پالیسی میں غیر یقینی طویل المدتی عدم استحکام کا سبب بنی ہے۔
سہولت کاروں کے لیے تین راستے
ترجمان نے خبردار کیا کہ جو لوگ بیرونی سہولت کاری میں ملوث ہیں ان کے پاس تین آپشن ہیں: یا تو وہ اپنے ہاتھ صاف کریں اور بیرونی عناصر کو ریاست کے حوالے کریں، یا ریاستی اداروں کے ساتھ مل کر دہشت گردی کا خاتمہ یقینی بنائیں، یا پھر ریاستی کارروائی کے لیے تیار رہیں۔ انہوں نے کہا کہ صورتحال غیر روایتی ہے اور سٹیٹس کو برقرار نہیں رہنے دیا جائے گا اگر لوگ ریاستی مفادات کے خلاف سرگرم رہے۔
قانونی نظام اور انصاف کے راستے
ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ انسدادِ دہشت گردی کے عدالتوں میں ہزاروں مقدمات زیرِ التوا ہیں اور فیصلہ سازی میں تاخیر بھی مسئلہ ہے۔ انہوں نے عدالتی اصلاحات، تیز رفتار مقدمہ چلانے اور شواہد کی بنیاد پر سزا کے نفاذ کی ضرورت پر زور دیا تا کہ مجرموں کو بروقت انصاف مل سکے اور ملینٹ نیٹ ورکس کی موت سست روی سے رک سکے۔
اخلاقی اور سیاسی پیغام
آخر میں لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے واضح کیا کہ ریاست اور ادارے کسی بھی سیاسی شعبدہ بازی سے متاثر نہیں ہوں گے اور نہ ہی کسی بھی فرد کو عوام کی جان، مال اور عزت کے ساتھ کھیلنے کی اجازت دی جائے گی۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان کی اساس سلامتی، قانون کی بالادستی اور عوامی مفاد ہے اور اسی کے مطابق ہر اقدام اٹھایا جائے گا۔
آئندہ لائحہ عمل
ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس نے واضح پیغام دیا ہے کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے صرف آپریشن کافی نہیں؛ سیاسی عزم، عدالتی اصلاحات، سرحدی شراکت داریوں کا ازسرِ نو جائزہ اور معاشی و سماجی پالیسیوں میں استحکام لازمی ہے۔ ان کے بقول جب تک یہ تمام عناصر ایک مربوط حکمتِ عملی میں یکجا نہیں ہوں گے، خیبرپختونخوا اور ملک کے دوسرے حصوں میں امن کا قیام خطرے میں رہے گا۔
دیکھیں: ضلع اورکزئی میں سیکیورٹی فورسز کا کامیاب آپریشن، 19 خوارج ہلاک