غزہ کے امن منصوبے کے حوالے سے مصر کے شہر شرم الشیخ میں آج ایک اعلیٰ سطحی سربراہی اجلاس منعقد ہورہا ہے، جسکی صدارت امریکی صدر ٹرمپ اور مصری صدر عبدالفتاح السیسی کر رہے ہیں۔ وزیرِ اعظم شہباز شریف اپنے وفد کے ہمراہ مصر پہنچ چکے ہیں جبکہ نائب وزیرِ اعظم اسحٰق ڈار بھی وزیرِ اعظم کے ہمراہ ہیں۔
امن سربراہی اجلاس میں برطانوی وزیرِ اعظم کیئر اسٹارمر، ترکی کے صدر رجب طیب اردوان، اٹلی کی وزیراعظم جارجیا میلونی، فرانس کے صدر ایمانویل میکرون، جرمنی کے صدر، اسپین کے وزیراعظم پیڈرو سانچیز، اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس اور 20 سے زائد عالمی رہنما شریک ہو رہے ہیں۔
مصری حکام کے مطابق اجلاس کا مقصد پائیدار جنگ بندی اور انسانی بحران کے لیے مؤثر و عملی اقدامات کرنے ہیں۔
اسرائیل حماس کی عدم شرکت
تاہم اہم بات یہ ہے کہ اسرائیل اور حماس نے مذکورہ اجلاس میں عدم شرکت کا اعلان کردیا ہے۔
دونوں فریقین کی عدمِ موجودگی نے کئی طرح کے سوالات کو جنم دیا ہے کہ آیا یہ اجلاس غزہ جنگ بندی کے لیے مفید بھی ثابت ہوگا یا پھر رسمی انداز سے ہی اختتام پذیر ہوگا۔
پاکستانی ردِ عمل
پاکستانی دفترِ خارجہ نے وزیراعظم شہباز شریف کی شرکت کو پاکستان کے اصولی موقف کی عکاسی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ پاکستان فلسطینی عوام کی حمایت جاری رکھے گا۔ بیان میں کہا گیا کہ مذکورہ اجلاس اسرائیلی افواج کے انخلا، فلسطینی شہریوں کے تحفظ، قیدیوں کی رہائی، انسانی امداد کی فراہمی اور غزہ کی تعمیرِ نو کے لیے معاون ثابت ہوگا۔
قیدیوں کے تبادلے اور جنگ بندی
اطلاعات کے مطابق اجلاس میں قیدیوں کے تبادلے کا منصوبہ بھی شامل ہے۔ ابتدائی مرحلے کے تحت 48 اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے بدلے 250 فلسطینی قیدی اور دورانِ جنگ گرفتار کیے گئے 1,700 غزہ کے لوگوں کی رہائی شامل ہے۔ حماس نے کہا ہے کہ اس منصوبے کے مطابق قیدیوں کا تبادلہ پیر کی صبح شروع ہو رہا ہے ۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ فلسطینی قیدیوں کی رہائی اس وقت ممکن ہو گی جب اسرائیلی قیدی سرحد پار کرچکے ہونگے۔
جنگ بندی کے نتیجے میں بے گھر افراد کی بڑی تعداد اپنے گھروں کی جناب واپس لوٹ رہی ہے۔ حماس کے مطابق پانچ لاکھ سے زائد افراد واپس آچکے ہیں۔
اجلاس میں انسانی بحران کے حل اور شہریوں کے تحفظ کے اقدامات کو بھی نمایاں طور پر زیرِ بحث لایا جاٗے گا۔
دیکھیں: حماس کا ٹرمپ امن منصوبے پر مثبت ردعمل، امریکی صدر کا اسرائیل کو غزہ میں بمباری روکنے کا حکم