خیبر پختونخوا کے نو منتخب وزیراعلی سہیل آفریدی کا تعلق ضلع خیبر پختونخواہ کی تحصیل باڑہ سے ہے۔ سہیل آفریدی نے پیشاور یونیورسٹی سے بی ایس اکنامکس کی ڈگری حاصل کی۔ سہیل آفریدی زمانہ طالب علمی میں انصاف اسٹوڈنٹس خیبر پختونخواہ کے صدر رہ چکے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ عمران خان نے صوبے کے وزیراعلی کے انتخاب کے لیے ایک ایسی شخصیت کا انتخاب کیا ہے جس کا تعلق مڈل کلاس سے ہے جو اپنی پارٹی سے پرانی وابستگی رکھتا ہے اور طالب علمی کے دور سے ہی سیاست کے داؤ پیچ جانتا ہے۔
سہیل آفریدی نے 2024 کے انتخابات میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے پی کے 70 کی نشست سے حصہ لیا تاہم انہیں تحریک انصاف کی مکمل حمایت حاصل رہی۔ وزیراعلی بننے سے قبل وہ علی امین گنڈا پور کی کابینہ کا حصہ رہے جہاں انہیں صوبائی وزیر برائے اعلی تعلیم کا قلمدان سونپا گیا۔ تحریک انصاف گزشتہ 13 سال سے خیبر پختونخوا میں صوبائی حکومت کر رہی ہے جہاں اس کے بلند وبانگ اور تبدیلی کے نعروں اور عوام کی جانب سے مقبولیت و حمایت کے باوجود اس کی کارکردگی سوالیہ نشان بنی رہی وہیں یہ سوال بھی اپنی جگہ موجود رہا کہ کیا صرف لیڈر اچھا ہونے اور نیچے قابل افراد کی کھیپ نہ ہونے سے کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ عمران خان کو پارٹی سطح پر اپنے قریبی ساتھیوں کی جانب سے دھوکہ دینے جیسے مسائل کا بھی سامنا رہا ۔
گزشتہ عام انتخابات گو کے کافی متنازع رہے تاہم خیبر پختون خواہ میں تحریک انصاف تیسری مرتبہ اپنی حکومت بنانے میں کامیاب رہی ۔اس دفعہ عمران خان جو کہ قید میں ہیں وزیراعلی کے لیے ان کی نظر انتخاب علی امین گنڈاپور پہ پڑی۔ پرویز خٹک کے ساتھ تلخ تجربے کے بعد علی امین کا انتخاب بھی کافی متنازع رہا۔ علی امین کی 20 ماہ کی صوبائی حکومت مسلسل مسائل کا شکار رہی جس میں ان کی جماعت کے اندرونی اختلافات،انتظامی امور ،امن و امان کی ناقص صورتحال شامل ہیں۔
علی امین کو دو معاملات کے اوپر پارٹی کے اندر شدید تنقید کا سامنا رہا جس میں ایک عمران خان کی بہن علیمہ خان سے اختلافات اور صوبائی حکومت کی جانب سے عمران خان کی رہائی کے لیے کیے جانے والے اقدامات پر عدم اعتماد کا اظہار شامل ہے۔
اگر خیبر پختونخوا حکومت کی دو سالہ کارکردگی کی بات کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ صوبائی حکومت کی کارکردگی بہت مایوس کن رہی جبکہ اسے مسلسل تیسری مرتبہ صوبے میں حکومت کرنے کا موقع ملا ہے ۔ جولائ 2025 گیلپ سروے کے مطابق 63 فیصد عوام کو صحت کی سہولیات میسر ہیں جبکہ جنوبی اور دیہی علاقوں میں حالات مزید خراب ہیں۔ اسی طرح 66 فیصد آبادی گیس سے محروم ہے، بے روزگاری کی شرح میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے اور صحت کارڈ صوبائی حکومت کی جانب سے ایسا اقدام ہے جس سے 85٪ عوام مطمئن نظر آتے ہیں۔
ان تمام حالات کے بعد سہیل آفریدی کو وزارت اعلی کا قلمدان سنبھالنے کے بعد تنظیمی اور صوبائی سطح پہ بے شمار چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔
جبکہ خیبر پختونخواہ میں جاری شورش ،قبائلی علاقوں میں جاری آپریشن ،پاک افغان تعلقات اور پاکستانی اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ کشیدہ تعلقات ،عمران خان کی رہائی وغیرہ شامل ہیں۔ تجزیہ کاروں کی رائے میں نئے وزیر اعلی کے لیے تجربے کی کمی اور وفاق کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ بڑا چیلنج ثابت ہوسکتا ہے۔
ایک رائے یہ بھی ہے کہ سہیل آفریدی کا انتخاب اس لیے عمل میں لایا گیا کہ وہ جارحانہ شخصیت کے حامل ہیں تاہم ان کے اس عمل سے پارٹی اور صوبے کو نقصان پہنچنے کا بھی اندیشہ ہے۔
دیکھنا یہ کہ سہیل آفریدی صوبے کو درپیش انتظامی چیلنجز ،عمران خان کی رہائی، قبائلی علاقوں میں آپریشن اور اسٹیبلیشمنٹ سے تعلقات جیسے چیلنجز سے کیسے نمٹتے ہیں جن کی انجام دہی میں گنڈاپور ناکام رہے اور انہیں گھر واپس جانا پڑا۔
دیکھیں: علی امین گنڈاپور مستعفیٰ؛ عمران خان نے سہیل آفریدی کو نیا وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نامزد کر دیا