اسلام آباد میں منعقد ہونے والے گیارہویں قومی مالیاتی کمیشن کے اجلاس میں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سہیل آفریدی کی شرکت صوبے کی حالیہ سیاسی اور انتظامی صورتحال کے تناظر میں خاص اہمیت کی حامل رہی۔ حلف اٹھانے کے بعد یہ ان کی پہلی قومی سطح کی سرگرمی تھی جس نے نہ صرف صوبائی حقوق کے سوال کو دوبارہ مرکزِ گفتگو بنایا بلکہ صوبے کی آئینی نمائندگی کے تسلسل کو بھی واضح کیا۔وزیراعلیٰ سہیل آفریدی نے اجلاس میں شرکت کے ذریعے یہ مؤقف مضبوط کیا کہ صوبوں کو اپنے مالی حقوق کے حصول کے لیے شورش یا احتجاج کے بجائے آئینی فورمز پر اعتماد بڑھانا چاہیے۔
ماہرین کے مطابق این ایف سی ایوارڈ ہی وہ واحد طریقہ ہے جس کے ذریعے خیبرپختونخوا اپنے مالی مسائل، سیکیورٹی اخراجات، ترقیاتی ضروریات اور محاصل کی تقسیم کے حوالے سے ٹھوس مطالبات کر سکتا ہے، صوبائی حکومت کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ نے اجلاس میں صوبے کی موجودہ مالی مشکلات خصوصاً وفاق کے ذمے واجب الادا بقایاجات، امن و امان کے اضافی اخراجات اور ترقیاتی فنڈز کی کمی پر تفصیلی بات چیت کی۔
گزشتہ چند ماہ میں تحریکِ انصاف اور وفاقی حکومت کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی نے ملک کے سیاسی ماحول کو خاصا متاثر کیا ہے۔ سہیل آفریدی نے وزیراعلی بننے کے بعد اپنا پہلا آئینی فرض مکمل کیا، سیاسی ماہرین رائے رکھتے ہے کہ پی ٹی آئی بطور رجسٹرڈ جماعت اپنی قیادت کے ہمراہ موجود ہے، اور پارٹی بانی کی رہائی صوبائی حکومت کی نہیں بلکہ جماعت کی قانونی و سیاسی ذمہ داری ہے۔ یہ مؤقف نہ صرف آئینی دائرہ کار کی وضاحت کرتا ہے بلکہ صوبے کو غیر ضروری سیاسی تنازع سے دور رکھنے کی کوشش بھی ہے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق وزیراعلیٰ نے ایک واضح پیغام دیا ہے کہ صوبائی حکومت اپنی انتظامی ذمہ داریوں کو سیاسی مقدمات سے الگ رکھے گی۔ خیبرپختونخوا اس وقت متعدد سنگین چیلنجز کی زد میں ہے،سرحدی علاقوں میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ اور سیکیورٹی اداروں پر بڑھتا دباؤ صوبے کی امن و امان کی صورتحال کو مسلسل پیچیدہ بنا رہا ہے۔
وفاق سے بقایاجات کی عدم ادائیگی، تنخواہوں کے مسائل اور ترقیاتی منصوبوں کی سست روی نے صوبے کی معاشی سانسیں تنگ کر دی ہیں۔ سرمایہ کاروں کی عدم دلچسپی اور نئی ملازمتوں کا فقدان صوبے کے نوجوانوں میں بے چینی بڑھا رہا ہے۔ وسائل کی کمی کے باعث صوبہ پہلے ہی مشکلات سے دوچار ہے، جبکہ مہاجرین کی بڑی تعداد نے اس دباؤ میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ان تمام مسائل کے حل کے لیے مضبوط اور متوازن حکومتی پالیسی کی ضرورت ہے۔تحریکِ انصاف ملک بھر میں احتجاجی تحریک جاری رکھے ہوئے ہے اور خیبرپختونخوا اس سلسلے میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ احتجاج کے باعث عوامی زندگی متاثر ہو رہی ہے جبکہ کاروباری طبقہ بھی پریشان ہے۔
تاہم وزیراعلیٰ سہیل آفریدی نے اب تک ایک محتاط حکمتِ عملی اپنائی ہے۔ نہ سخت گیری، نہ بے جا نرمی بلکہ ایسے اقدامات جو احتجاج کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے امن و امان کو برقرار رکھنے میں مدد دیتے ہیں۔ سیاسی حلقوں کے مطابق، وزیراعلیٰ کے سامنے چند بڑے اہداف موجود ہیں، وفاق سے مالی حقوق کی بحالی، سیکیورٹی اصلاحات، ترقیاتی منصوبوں کی رفتار تیز کرنا، سیاسی درجہ حرارت میں کمی، صوبے کو انتظامی بحران سے باہر نکالنا بے حد ضروری ہے، اگر وہ ان محاذوں پر پیش رفت کرنے میں کامیاب ہو گئے تو یہ نہ صرف صوبے کی بہتری کا باعث ہوگا بلکہ ان کی سیاسی حیثیت بھی مضبوط ہو گی۔
وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کی این ایف سی اجلاس میں بھرپور شرکت اس امر کا اشارہ ہے کہ صوبائی حکومت آئینی راستہ اختیار کرتے ہوئے اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ پی ٹی آئی کی داخلی سیاست اپنی جگہ، مگر ساڑھے چار کروڑ عوام امن، روزگار اور استحکام چاہتے ہیں اور یہی وہ چیلنج ہے جس پر وزیراعلیٰ کا اصل امتحان شروع ہوتا ہے۔