گزشتہ 40 برسوں سے افغانستان مسلسل جنگ و جدل، خانہ جنگی، بھوک اور افلاس کا شکار رہا ہے۔ اس دوران اس کے خیر خواہ اور دشمن کھل کر سامنے آئے ہیں۔ افغان حکومت، طالبان اور عوام کو امریکی پسپائ کے بعد بمشکل سکون کا لمحہ میسر آیا ہی تھا کہ اپنی ہی داخلی پالیسیوں اور ناکامیوں کے سبب ملک ایک بار پھر کئی پیچیدہ مسائل میں گھر چکا ہے۔ اگر ایک طرف یہ مسائل غیر ملکی تسلط کے نتیجے میں ہیں تو دوسری طرف داخلی ملکی پالیسیوں کی خامیاں بھی کم اثر نہیں رکھتیں۔
آج کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ کابل انتظامیہ پرانی راہیں چھوڑ کر نئی پگڈنڈیوں کی تلاش میں ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ نئی راہیں افغانستان کو حقیقی استحکام اور ترقی کی نئی منزل تک پہنچا سکیں گی؟ یہ وہ سوال ہے جو ہر سیاسی طالب علم اور تجزیہ کار کے ذہن میں ابھر رہا ہے۔
حالیہ دنوں میں افغانستان اور پاکستان کے تعلقات میں جو سرد مہری دیکھنے کو ملی، وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ طورخم بارڈر، جو کبھی تجارتی روابط کا گہوارہ تھا، اب گولیوں کی تڑتڑاہٹ اور کشیدگی کا منظر پیش کر رہا ہے۔ چمن سیکٹر پر حالیہ فائرنگ نے دونوں ممالک کے تعلقات کو مزید کشیدہ کر دیا، اور ہر طرف ایک دوسرے پر الزامات کا سلسلہ جاری ہے۔
پاکستان واضح کر چکا ہے کہ جب تک افغانستان اپنی سرزمین کو دہشت گرد گروپوں، خاص طور پر تحریک طالبان پاکستان کے خلاف استعمال ہونے سے نہیں روکتا اور اعتماد سازی کے اقدامات نہیں کرتا، تجارتی راستوں کی روانی مشکل رہے گی۔
اس کشیدہ صورتحال میں افغانستان نے اپنی تجارتی پالیسی کا رخ بدلنے کا فیصلہ کیا۔ ملا برادر کی ہدایت پر تاجروں کو ہدایت دی گئی کہ وہ پاکستان کے بجائے ازبکستان اور ایران کے راستے استعمال کریں۔ چار سال بعد ازبکستان کے ساتھ اہم تجارتی راستہ “ترمذ-حیرتان” دوبارہ کھولا گیا، اور امید ظاہر کی گئی کہ تجارتی حجم ڈھائی ارب ڈالر تک پہنچ سکتا ہے۔ ازبک وفود کابل کے دورے کر رہے ہیں اور زراعت، ادویات اور سیمنٹ کے شعبوں میں اہم معاہدے کیے جا رہے ہیں۔
تاہم تصویر کا دوسرا رخ بھی نظر آتا ہے۔ کیا یہ تعلقات پائیدار اور دیرپا ہوں گے؟ ازبکستان ایک خشکی میں گھرا ہوا ملک ہے، اور پاکستان کے مقابلے میں دیگر ممالک کے راستے مہنگے اور لاجسٹکس کے اعتبار سے پیچیدہ ہو سکتے ہیں۔
ثقافتی اور نسلی توازن کا معاملہ بھی اہم ہے۔ طالبان حکومت ازبکستان کے ساتھ تجارتی تعلقات بڑھا رہی ہے، مگر جوزجان یونیورسٹی کے بورڈ سے ازبک زبان کو ہٹا کر صرف پشتو اور انگریزی کو جگہ دی گئی۔ یہ تضاد نہ صرف مقامی ازبک آبادی کے جذبات کو مجروح کر رہا ہے بلکہ ازبکستان کے ساتھ سفارتی تعلقات میں بھی کھٹاس پیدا کر سکتا ہے۔
علاوہ ازیں، خطے میں چین اور روس جیسے بڑے کھلاڑی بھی افغانستان میں شدت پسند گروپوں کی موجودگی پر تشویش میں مبتلا ہیں، جیسا کہ تاجکستان اور چینی شہریوں پر حملوں سے ظاہر ہوتا ہے۔
افغانستان اس وقت شدید معاشی دباؤ کا شکار ہے۔ منجمد اثاثے، بیروزگاری اور پاکستان کے ساتھ کشیدہ تعلقات نے ملک کو متبادل اقتصادی راستے تلاش کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔
تاہم افغان عوام کے روشن مستقبل کے لیے ضروری ہے کہ افغانستان خطے کے تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ متوازن تعلقات قائم رکھے، چاہے وہ پاکستان ہو یا وسطی ایشیائی ریاستیں۔ صرف اس صورت میں ملک کی سیاسی و معاشی استحکام ممکن ہے اور عوام کو دیرپا فائدہ پہنچ سکتا ہے۔
دیکھیں: افغان طالبان کے دعوے بے نقاب؟ افغانستان میں کالعدم جماعتُ الاحرار کا اجلاس