افغانستان کے تہران میں ہونے والے اہم علاقائی اجلاس سے غیر حاضر رہنے کے فیصلے نے بین الاقوامی حلقوں میں تشویش پیدا کر دی ہے۔ چھ ہمسایہ ممالک اور روس کی اس اجلاس میں موجودگی جبکہ افغان حکام کی عدم شرکت نے علاقائی امن واستحکام خطرہ قرار دیا ہے۔ اس اجلاس کے محض چند دن بعد ایران کے سینئر سفارت کار محمد رضا بہرامی نے وزیرِ خارجہ مولوی امیر خان متقی سے ملاقات کی اور انہیں اجلاس کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔
ایرانی سفارت کار نے کہا کہ افغانستان سے تعلقات ایران کی خارجہ پالیسی میں مرکزی حیثیت رکھتے ہیں اور انہوں نے امید ظاہر کی کہ امارت اسلامیہ افغانستان علاقائی تعاون میں مثبت کردار ادا کرے گی۔ انہوں نے وزیر خارجہ کو تہران کا دورہ کرنے کی دعوت بھی دی۔
مولوی متقی نے جواباً کہا کہ دونوں ممالک کے تعلقات مثبت سمت میں ہیں اور افغانستان نے تہران اجلاس سے متعلق اپنا موقف واضح کر دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان اب ایک مشکل دور سے گزر کر ترقی کی راہ پر تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ نیز افغانستان کو اب ‘مسئلہ’ نہیں بلکہ ‘شراکت دار’ کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔
Days after the #Afghan gov't refused to join a regional meeting in #Tehran, a senior Iranian diplomat travelled to #Kabul and held talks with Afghan Foreign Minister Mawlawi Amir Khan Muttaqi to brief him about the meeting. Kabul had skipped the meeting of Afghanistan's six… pic.twitter.com/eTiFlBj5CS
— Tahir Khan (@taahir_khan) December 17, 2025
تاہم سیاسی مبصرین کے نزدیک یہ غیر حاضری اور حالیہ ہفتوں میں افغان حکومت کے یک طرفہ اقدامات جیسے کہ بدخشان میں مبینہ طور پر چینی شہریوں کو نشانہ بنانے والے گروہ کے خلاف خفیہ آپریشن، اس کے علاقائی تعاون کے دعوؤں کے متضاد ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ان اقدامات میں متعلقہ ممالک کو بروقت معلومات فراہم نہ کرنا علاقائی اعتماد کو مجروح کرتا ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ بین الممالک اجلاسات میں شرکت سے گریز اور یک طرفہ کارروائیاں افغانستان کی جانب سے اجتماعی ذمہ داری سے انحراف کی علامت ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حقیقی شراکت داری کی بنیاد بروقت معلومات کا تبادلہ اور اجتماعی سلامتی کے میکانزمز میں فعال شرکت ہے، نہ کہ محض دعوے اور بیانیہ سازی پر۔ اگرچہ دونوں جانب سے دو طرفہ تعلقات کو بہتر قرار دیا گیا ہے لیکن افغانستان کی اس اہم علاقائی میٹنگ سے دوری اور یک طرفہ طرز عمل نے اس کی علاقائی پالیسی کے بارے میں سوالات کو جنم دیا ہے۔
دیکھیں: پاکستان کے طلبا وطالبات عالمی سطح پر شاندار کامیابیاں سمیٹنے لگے