بھارت اور پاکستان میں عوامی حلقوں، سماجی کارکنوں اور سیاسی رہنماؤں نے بھارتی ریاست بہار کے وزیرِ اعلیٰ نتیش کمار کے ایک انتہائی تشویشناک اقدام کی شدید مذمت کی ہے، جس میں وہ ایک سرکاری تقریب کے دوران ایک مسلم خاتون کا نقاب خود اتارتے نظر آئے۔ اس واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد شدید ردِعمل سامنے آیا ہے۔
یہ واقعہ پیر کے روز پٹنہ میں منعقد ہونے والی ایک سرکاری تقریب میں پیش آیا، جہاں نتیش کمار آیوش (آیوروید، یوگا، نیچروپیتھی، یونانی، سدھا اور ہومیوپیتھی) کی ڈاکٹر نصرت پروین کو تقرری نامہ پیش کر رہے تھے۔ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ جیسے ہی ڈاکٹر نصرت پروین اسٹیج پر آئیں، وزیرِ اعلیٰ نے انہیں نقاب ہٹانے کا اشارہ کیا اور ان کے جواب یا رضامندی سے قبل خود آگے بڑھ کر ان کا نقاب نیچے کھینچ دیا، جس سے ان کا منہ اور ٹھوڑی ظاہر ہو گئی۔
یہ لمحہ ڈاکٹر نصرت پروین کے لیے غیر متوقع اور ہتک آمیز تھا۔ اسٹیج پر موجود دو افراد، جن میں ریاست کے وزیرِ داخلہ سمرت چودھری بھی شامل تھے، نے رسمی انداز میں مداخلت کی کوشش کی، جبکہ دیگر افراد اس واقعے کو ایک غیر سنجیدہ مذاق سمجھتے ہوئے ہنستے رہے، جس نے صورتحال کی سنگینی کو مزید اجاگر کیا۔
اس واقعے پر بھارت اور پاکستان دونوں میں شدید غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا صارفین، انسانی حقوق کے کارکنان اور سیاسی شخصیات نے وزیرِ اعلیٰ سے غیر مشروط معافی اور بعض حلقوں نے ان کے استعفے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ کئی مبصرین کے مطابق یہ واقعہ محض ایک فرد کی غلطی نہیں بلکہ بھارت میں مسلمانوں، بالخصوص مسلم خواتین کے ساتھ بڑھتے ہوئے عدم احترام کی ایک علامت ہے۔
ہیومن رائٹس کونسل آف پاکستان نے اس واقعے کو “انتہائی شرمناک، قابلِ مذمت اور غیر انسانی اقدام” قرار دیتے ہوئے بھارتی حکومت سے فوری، شفاف اور غیر جانبدار تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ کونسل نے اپنے بیان میں کہا کہ یہ واقعہ صرف ایک خاتون کی توہین نہیں بلکہ انسانی وقار، مذہبی آزادی، خواتین کی ذاتی خودمختاری اور بنیادی انسانی حقوق پر کھلا حملہ ہے، جو کسی بھی مہذب اور نام نہاد سیکولر ریاست میں ناقابلِ قبول ہے۔
کونسل نے مطالبہ کیا کہ اقوامِ متحدہ، جنرل اسمبلی اور بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیمیں اس واقعے کا نوٹس لیں اور بھارت سے جوابدہی کا تقاضا کریں۔ ساتھ ہی متاثرہ خاتون سے ذاتی اور سرکاری سطح پر معافی مانگنے اور مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے مؤثر قانونی و ادارہ جاتی اقدامات پر زور دیا گیا۔
سابق بھارتی اداکارہ زائرہ وسیم نے بھی واقعے پر سخت ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ “ایک عورت کی عزت اور حیا کوئی کھلونا نہیں جس سے کھیلا جائے”، اور نتیش کمار سے غیر مشروط معافی کا مطالبہ کیا۔
بھارتی سیاستدان پرینکا چترویدی نے کہا کہ اس صورتحال کی ناانصافی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ممکن ہے متاثرہ خاتون پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ کہے کہ وہ اس واقعے پر مطمئن ہیں، حالانکہ اصل نتائج کا سامنا انہیں ہی کرنا پڑتا ہے۔
لوک سبھا کے رکن آغا سید روح اللہ مہدی نے اس عمل کو “ناقابلِ دفاع” اور “انتہائی تشویشناک” قرار دیتے ہوئے وزیرِ اعلیٰ سے معافی اور عہدے سے علیحدگی کا مطالبہ کیا، اور ان کے طرزِ عمل پر سوال اٹھایا۔
سوشل میڈیا پر صارفین نے اس واقعے کو اختیارات کے غلط استعمال سے تعبیر کیا۔ کئی صارفین نے نشاندہی کی کہ کسی بھی عہدے دار کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی خاتون کو پروٹوکول یا طاقت کے نام پر چھوئے یا ذلیل کرے۔ بعض صارفین نے اس عمل کو ایسے ہی قرار دیا جیسے کسی ہندو خاتون کی ساڑی زبردستی کھینچ لی جائے، تاکہ اس فعل کی سنگینی کو واضح کیا جا سکے۔
یہ واقعہ اس لیے بھی زیادہ تشویشناک قرار دیا جا رہا ہے کہ یہ کسی گلی یا ہجوم میں نہیں بلکہ ایک سرکاری اسٹیج پر، ریاستی سرپرستی میں اور قہقہوں کے سائے تلے پیش آیا۔ اس تقریب میں 1283 آیوش ڈاکٹروں کے سامنے ڈاکٹر نصرت پروین کو تضحیک کا نشانہ بنایا گیا۔
نقاب یا حجاب پہننا مسلم خواتین کا ذاتی، مذہبی، ثقافتی یا شخصی انتخاب ہوتا ہے۔ کسی خاتون کا نقاب یا حجاب زبردستی ہٹانا، خصوصاً کسی مرد کی جانب سے اور وہ بھی عوامی مقام پر، نہ صرف توہین آمیز اور مداخلت آمیز ہے بلکہ یہ روزمرہ اسلاموفوبیا کے زمرے میں آتا ہے۔
پاکستان کے نائب وزیرِ اعظم اور وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار نے بھی اس واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ
“بہار میں مسلم خاتون کی بے حرمتی کا شرمناک واقعہ نہایت قابلِ مذمت اور پریشان کن ہے۔ ایسے اقدامات اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ اور بڑھتی ہوئی اسلاموفوبیا کے تدارک کی فوری ضرورت کو اجاگر کرتے ہیں۔ خواتین اور مذہبی عقائد کا احترام ہر معاشرے میں ایک بنیادی اور ناقابلِ سمجھوتہ اصول ہونا چاہیے۔”
The shameful incident involving the disrespect of a Muslim woman in Bihar is reprehensible and extremely disturbing.
— Ishaq Dar (@MIshaqDar50) December 17, 2025
Such acts underscore the imperative to safeguard minority rights and to address the troubling rise of Islamophobia. Respect for women and religious beliefs must… https://t.co/19NbkYordo
مبصرین کے مطابق یہ واقعہ بھارت کے آئین میں دی گئی مساوات اور مذہبی آزادی کی ضمانتوں اور زمینی حقائق کے درمیان موجود تضاد کو بے نقاب کرتا ہے، جہاں اقلیتوں کی شناخت اور وقار کو اکثریتی معیارات کے تابع کر دیا جاتا ہے۔ ایسے واقعات نہ صرف علامتی نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ اقلیتوں کو سرکاری اور پیشہ ورانہ شعبوں میں شرکت سے بھی بددل کرتے ہیں۔
دیکھیں: افغان و بھارتی سوشل میڈیا پر عمران خان کی جیل میں ہلاکت کی افواہ بے بنیاد نکلی