پاکستانی انٹیلی جنس اداروں نے داعش خراسان (آئی ایس آئی ایس کے) کے خلاف فیصلہ کُن کامیابی حاصل کی ہے۔ پاکستان کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ‘ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان’ اس بات کی تصدیق کی ہے کہ داعش کے ترجمان الاعظائم فاؤنڈیشن کے بانی اور اس کے آفیشل میڈیا ونگ کے سربراہ سلطان عزیز اعظام کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔۔
العظائم فاؤنڈیشن کو داعش خراسان کا سب منظم پراپیگنڈا بازو سمجھا جاتا تھا، جو عالمی سطح پر نوجوانوں کی بھرتی اور انتہاپسندانہ مواد کی تشہیر کا ذمہ دار تھا۔ اسکے میڈیا ونگ کے سربراہ سلطان اعظّام کی گرفتاری کے فوری بعد سے ہی تنظیم کی میڈیا سرگرمیاں معطل ہو چکی ہیں جو اس گروہ کے لیے بھاری نقصان کے مترادف ہے۔
پاکستانی انٹیل جنس نے عزیز اعظام کے ساتھ ساتھ داعش کے ایک اور مرکزی رہنما ابو یاسر الترکی کو بھی مئی 2025 گرفتار میں کیا تھا۔ ماہرین کے مطابق ان دو اہم شخصیات کی گرفتاری نے تنظیم کی سرگرمیوں کو شدید متاثر کیا ہے۔
اقوامِ متحدہ کی اینالیٹیکل سپورٹ اینڈ سینکشنز مانیٹرنگ ٹیم کی 16ویں رپورٹ نے بھی پاکستان کی ان کامیابیوں کی تصدیق کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں کی گئی کارروائیوں کے نتیجے میں داعش خراسان کا عالمی تنظیمی شدید متاثر ہوا ہے۔ متعدد حملوں کے منوبے ناکام بنا دیے گئے، جنگجوؤں کی تعداد میں بھی کمی آئی ہے اور اہم کمانڈرز اور تنظیمی رہنما بے اثر ہو چکے ہیں۔
پاکستان کی کاروائیوں کے باعث داش کے متعدد گروہوں پر بھی ہوا ہے۔ وائس آف خراسان جیسے اہم چینلز کی سرگرمیاں بھی معطل ہوئی ہیں۔عالمی ماہرین اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ سلطان عزیز اعظّام اور ابو یاسر الترکی کی گرفتاری نے داعش خراسان کی کارروائیوں کو شدید متاثر کیا ہے۔ اس سے نہ صرف تنظیم کی سرگرمیاں اور پالیسی متاثر ہوئی ہیں بلکہ اس کا عالمی نیٹ ورک بھی شدید بحران کا شکار ہوا ہے۔
پاکستانی انٹیلی جنس کی یہ کامیابی ملکی سلامتی کے دائرے میں ایک اہم سنگ میل قرار دی جا رہی ہے جو خطے میں دہشتگردی کے خلاف جنگ میں ایک واضح تبدیلی کی علامت ہے۔
اقوامِ متحدہ کی نظر میں
اقوامِ متحدہ کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق سلطان عزیز اعظّام 2015 سے یعنی افغانستان میں داعش خراسان کے قیام کے ابتدائی دور سے ہی اس کے ترجمان کے طور پر سرگرم تھے۔ ایک سابق صحافی کی حیثیت سے انہوں نے تنظیم کی پرتشدد نظریاتی تشہیر، دہشت گردانہ کارروائیوں کے لیے نظریاتی جواز سازی اور عالمی سطح پر اس کی پہچان بنانے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ انہوں نے کئی بڑے حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے جن میں 26 اگست 2021 کو کابل کے حامد کرزئی بین الاقوامی ہوائی اڈے پر ہونے والے خودکش حملہ اور 2 مارچ 2021 کو تین خواتین صحافیوں کی ہلاکت شامل ہیں۔ اس کے علاوہ 3 اگست 2020 کو جلال آباد کی مرکزی جیل پر ہونے والے حملے میں بھی ان کا اہم کردار رہا، جس کے نتیجے میں سینکڑوں قیدی فرار ہوئے اور درجنوں افراد ہلاک یا زخمی ہوئے۔
سلطان عزیز کی پروپیگنڈا مہم نے داعش خراسان کی بھرتی کے عمل کو اور تنظیم کے اثر و رسوخ کو وسعت دی ہے۔ ان کی تحریر کردہ کتابوں اور مضامین میں جہادیوں کے کارناموں کو افسانوی انداز میں پیش کیا گیا جو نوجوانوں کو متشدد بنانے کے لیے ایک طاقتور آلہ ثابت ہوئے۔ ان کے پیغامات اور نظریاتی بیانات ٹیلی گرام اور دیگر خفیہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر وائرل ہوتے رہے جس سے تنظیم کی عالمی پہنچ میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ ان کی گرفتاری اور پاکستان کی دیگر مربوط کارروائیوں نے تنظیم کی آپریشنل صلاحیت اور اس کے عالمی نیٹ ورک کو گہرا صدمہ پہنچایا ہے۔