ترکی میں حالیہ مذاکرات کے بعد افغان حکومت کے ترجمان مولوی ذبیح اللہ مجاهد کے ایک بیان نے دونوں ممالک کے تعلقات پر نئی بحث چھیڑ دی ہے۔
ترکی میں حالیہ مذاکرات کے بعد مولوی ذبیح اللہ مجاهد نے ایک بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ پاکستاني وفد نے مبینہ طور پر اپنے اُن شہریوں کو قبول کرنے سے انکار کیا جو افغانستان میں موجود ہیں۔
ذبیح اللہ مجاهد نے دعویٰ کیا ہے کہ ترکی میں ہونے والی بات چیت کے دوران افغان وفد نے پاکستان کو یہ پیشکش کی تھی کہ اگر پاکستان کو افغانستان میں موجود پناہ گزینوں کے بارے میں کوئی خدشہ ہے تو کابل حکومت ان افراد کی حوالگی کے لیے تیار ہے۔ تاہم ان کے مطابق، پاکستانی وفد نے اس تجویز کو قبول نہیں کیا۔
اسلامی امارت کے ترجمان نے یہ بھی کہا کہ افغانستان میں کسی غیر ملکی کو ہتھیار اٹھانے یا غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی اجازت نہیں دی جاتی، اور اگر پاکستان کو کسی فرد کے بارے میں شک ہے تو وہ کابل حکومت کے ساتھ معلومات شیئر کرے۔
پااکستانی سرکاری ذرائع نے اس بیان کو حقائق کے منافی قرار دیا ہے۔ وزارتِ اطلاعات و نشریات کے مطابق پاکستان گزشتہ چار دہائیوں سے لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی کر رہا ہے، اور حالیہ واپسی کا عمل صرف ان افراد سے متعلق ہے جو غیر قانونی طور پر ملک میں مقیم ہیں۔
وزارت کا کہنا ہے کہ پاکستان کسی بھی ملک کے شہریوں کو “اپنے شہری” تسلیم نہیں کرتا، اور ذبیح اللہ مجاهد کا دعویٰ غلط فہمی پر مبنی ہے۔
سرکاری مؤقف کے مطابق پاکستان افغان حکومت کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہے، اور مہاجرین کی واپسی کا عمل بین الاقوامی قوانین اور انسانی اصولوں کے مطابق جاری ہے۔
اس کے علاوہ افغانستان نے خواجہ آصف کو محض علامتی وزیر قرار دیتے ہوئے ان کے بیانات پر ردعمل جاری کرنے سے منع کیا ہے۔ حیران کن طور پر یہی خواجہ آصف کچھ دن قبل دوحہ میں پاکستانی وفد کی قیادت کر رہے تھے جس کے ساتھ افغان وزیر دفاع ملا یعقوب نے معاہدہ کیا اور تصاویر بنوائیں تھیں۔ تاہم ماہرین نے خود ذبیح اللہ مجاہد کی حیثیت پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے بطور ترجمان بیانات کو خود ان کے وزرا اور مشیر رد کر دیتے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ بیانات ایسے وقت میں سامنے آ رہے ہیں جب دونوں ممالک کے تعلقات پہلے ہی دباؤ کا شکار ہیں۔
پاکستان کو سرحد پار دہشت گردی کے واقعات پر تشویش ہے، جبکہ افغان حکومت کا کہنا ہے کہ اسے مہاجرین کی واپسی کے طریقہ کار پر تحفظات ہیں۔
پاکستان کا مؤقف ہے کہ اس کا مقصد انسانی بنیادوں پر مہاجرین کی منظم واپسی ہے، نہ کہ کسی ملک یا قوم کے خلاف کارروائی۔
حکومت کا کہنا ہے کہ علاقائی امن اور استحکام کے لیے ضروری ہے کہ کابل حکومت اپنی سرزمین سے دہشت گرد گروہوں کی سرگرمیاں روکنے میں مؤثر کردار ادا کرے۔
ترکی میں ہونے والی بات چیت کا مقصد تعاون اور ہم آہنگی کو فروغ دینا تھا لیکن ذبیح اللہ مجاهد کے حالیہ بیان نے دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کے فقدان کو ایک بار پھر نمایاں کر دیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اسلام آباد اور کابل اختلافات کے بجائے عملی تعاون کے راستے پر کیسے آگے بڑھتے ہیں۔
دیکھیں: پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات بے نتیجہ ختم