افغان طالبان حکومت نے افغانستان کے استحکام اور علاقائی سکیورٹی سے متعلق ایران میں ہونے والی اعلیٰ سطحی علاقائی کانفرنس میں شرکت سے انکار کر دیا ہے۔ یہ کانفرنس آئندہ ہفتے تہران میں منعقد ہونا ہے، جس میں پاکستان، چین، روس اور وسطی ایشیائی ممالک کے نمائندوں کی شرکت متوقع تھی۔
افغان وزارتِ خارجہ کے نائب ترجمان حافظ ضیاء احمد تکل نے تصدیق کی ہے کہ افغان حکومت کو ایران کی جانب سے دعوت موصول ہوئی تھی، تاہم کابل نے اس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب افغانستان کے ہمسایہ ممالک سرحد پار سکیورٹی خطرات، بالخصوص دہشت گردی کے پھیلاؤ، پر شدید تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔
ماہرین کے مطابق افغانستان کا اس اجلاس میں شریک نہ ہونا کابل اور علاقائی ممالک کے درمیان بڑھتے ہوئے سفارتی فاصلے کی نشاندہی کرتا ہے۔ خطے کے ممالک اب شنگھائی تعاون تنظیم کے افغانستان رابطہ گروپ اور ماسکو فارمیٹ جیسے موجودہ پلیٹ فارمز کے ذریعے باہمی رابطے کو ترجیح دے رہے ہیں، تاکہ افغانستان سے جڑے سکیورٹی خدشات پر مشترکہ حکمتِ عملی اپنائی جا سکے۔
افغان وزارتِ خارجہ کے ترجمان کے مطابق اسلامی امارت کا مؤقف ہے کہ وہ موجودہ علاقائی اور دوطرفہ فورمز کے ذریعے ہی بہتر روابط اور مفاہمت کو فروغ دے سکتی ہے، اور انہی ذرائع سے عملی پیش رفت بھی ہو چکی ہے۔ تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ تہران اجلاس میں عدم شرکت سے کابل نے اپنے ہمسایہ ممالک کے خدشات کو براہِ راست دور کرنے اور اعتماد سازی کا ایک اہم موقع ضائع کر دیا ہے۔
حالیہ دنوں میں افغان علما کے ایک بڑے اجتماع کی جانب سے افغانستان سے باہر عسکری سرگرمیوں کی ممانعت سے متعلق جاری کردہ فتویٰ بھی شکوک و شبہات کی زد میں ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ ایک داخلی مذہبی اعلان تو ہے، مگر پاکستان اور دیگر ہمسایہ ممالک کو درکار ٹھوس اور قابلِ تصدیق سکیورٹی ضمانتیں فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے، خصوصاً کالعدم ٹی ٹی پی جیسے گروہوں کے خلاف عملی اقدامات کے حوالے سے۔
ایرانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان کی جانب سے تجویز کردہ یہ کانفرنس دراصل ہمسایہ ممالک کی بڑھتی ہوئی بے چینی کی عکاس تھی، جہاں سرحد پار عسکریت پسندی اور افغانستان میں سیاسی عمل کی جمود کا شکار صورتحال پر بات چیت ہونا تھی۔ اس اجلاس میں افغانستان، پاکستان، تاجکستان، ازبکستان، ترکمانستان، چین اور روس کے خصوصی نمائندوں کی شرکت متوقع تھی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے علاقائی فورمز پاکستان سمیت دیگر ممالک کے لیے اس لیے اہم ہیں کہ ماضی میں کابل کے ساتھ دوطرفہ سکیورٹی وعدے، خاص طور پر دہشت گرد گروہوں کے خلاف کارروائی کے حوالے سے، زمینی حقائق میں تبدیل نہیں ہو سکے۔ تہران میں چین، روس، ایران، پاکستان اور وسطی ایشیائی ممالک کا اکٹھا ہونا اس بات کی علامت ہے کہ خطے میں اس بات پر اتفاق بڑھ رہا ہے کہ افغانستان کا استحکام ایک مشترکہ ذمہ داری ہے۔
افغانستان کی جانب سے اس اجلاس میں شرکت سے انکار نہ صرف بداعتمادی میں اضافہ کر سکتا ہے بلکہ یہ خدشہ بھی پیدا کرتا ہے کہ علاقائی ممالک مستقبل میں افغانستان کو نظرانداز کرتے ہوئے باہمی یا کثیرالجہتی تعاون کو تیز کر دیں گے۔ اس صورتحال سے کابل کے علاقائی سکیورٹی میکنزمز میں مزید تنہا ہونے کا امکان ہے۔
پاکستان کے لیے ماہرین کے مطابق ضروری ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف علاقائی تعاون کی مسلسل وکالت، مکالمے پر مبنی حل کی حمایت، اور امن و استحکام کے لیے اجتماعی کوششوں میں اپنے تعمیری کردار کو اجاگر کرتا رہے، جبکہ کابل کی اجتماعی علاقائی کوششوں میں عدم شمولیت واضح تضاد کے طور پر سامنے آتی رہے۔
دیکھیں: اقوام متحدہ کی بریفنگ: افغانستان کی بگڑتی سکیورٹی اور علاقائی خطرات