جب 1978 میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان کے اقتدار میں آنے اور پھر 1979 میں سوویت افواج کے داخلے کے بعد افغانستان عملی طور پر ماسکو کا زیرِاثر “کلائنٹ اسٹیٹ” بن گیا۔ کابل کی حکومت نے نہ صرف سوویت یونین کو اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت دی بلکہ اپنی فضائی اور فوجی تنصیبات بھی ان کے حوالے کر دیں۔
افغان ایئربیسز کا سوویت استعمال
بگرام، شیندند اور قندھار ایئربیسز مکمل طور پر سوویت فضائیہ کے اختیار میں دے دیے گئے۔ افغان فضائیہ کے افسران سوویت پائلٹس کے ساتھ مشترکہ مشنز پر پرواز کرتے تھے۔ افغان ریڈار اور ایئر کنٹرولر بھی سوویت طیاروں کی رہنمائی کرتے تھے تاکہ پاکستان کے اندر اہداف کو نشانہ بنایا جا سکے۔
پاکستان کے خلاف حملے
پھر 1980 کی دہائی میں سوویت طیاروں نے بارہا پاکستانی علاقوں کو نشانہ بنایا۔ چمن اور پاراچنار کے مہاجر کیمپوں پر بمباری کے نتیجے میں درجنوں، بلکہ سینکڑوں جانیں ضائع ہوئیں۔ 1987 میں پاراچنار کے قریب ایک مہاجر کیمپ پر بمباری میں ایک دن میں 100 سے زیادہ افراد جاں بحق ہوئے۔ افغان ریاستی میڈیا نے اس حملے کو “کامیاب جوابی کارروائی” قرار دیا۔
پاکستان کا ردِعمل
پاکستانی فضائیہ نے 1986–87 میں کئی فضائی جھڑپوں میں سوویت اور افغان طیارے مار گرائے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ سوویت یونین افغان حکومت کی مکمل سرپرستی سے براہِ راست پاکستان کو نشانہ بنا رہا تھا۔
تاریخی حقیقت اور موجودہ تضاد
اصل حقیقت یہ ہے کہ افغانستان نے خود سوویت یونین کو اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی دعوت دی تھی۔ آج کے بعض افغان حلقے جب پاکستان کو 2001 کے بعد کی پالیسیوں پر طعنہ دیتے ہیں تو وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ خود افغانستان نے 1980 کی دہائی میں ایک سپر پاور کو پاکستان کے خلاف کھل کر استعمال کیا تھا۔
پاکستان میں آج بھی یہ بات تسلیم کی جاتی ہے کہ 2001 کے بعد “وار آن ٹیرر” میں شمولیت ایک بڑی غلطی تھی۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ افغان قیادت نے کبھی سوویت یونین کے ساتھ پاکستان کے خلاف اپنے کردار پر ندامت ظاہر نہیں کی۔
دیکھیں: پاکستان افغانستان میں امن کا خواہاں ہے مگر اس کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہو؛ حکام