پیرس میں منعقدہ ایک احتجاجی ریلی میں خبردار کیا گیا ہے کہ افغان صحافی اس وقت ایک سنگین اور جان لیوا بحران کا سامنا کر رہے ہیں، جہاں انہیں گرفتاری، ظلم و ستم، جلاوطنی، اور زبردستی افغانستان واپس بھیجے جانے کے شدید خطرات لاحق ہیں۔ اس ریلی میں میزبان ممالک، اقوام متحدہ اور بین الاقوامی اداروں سے فوری اقدامات کا مطالبہ کیا گیا۔
یہ احتجاج افغانستان میڈیا سپورٹ آرگنائزیشن کے زیرِ اہتمام منعقد ہوا، جس نے کہا کہ مختلف ممالک اور عالمی اداروں کی تاخیر اور خاموشی کے باعث افغان صحافیوں کی زندگیاں براہِ راست خطرے میں ہیں۔ اے ایم ایس او کے مطابق درجنوں افغان صحافی اور میڈیا ورکرز بیرونِ ملک پھنسے ہوئے ہیں، جن کے پناہ کے کیس یا تو مسترد کر دیے گئے ہیں یا انٹرویوز کے باوجود طویل عرصے سے التوا کا شکار ہیں، جبکہ کئی صحافی ابھی تک انٹرویو کی تاریخ کے منتظر ہیں۔
تنظیم نے خبردار کیا کہ اس غیر یقینی صورتحال نے شدید معاشی مشکلات، ذہنی دباؤ اور صحافیوں و ان کے خاندانوں کے لیے سنگین سیکیورٹی خطرات کو جنم دیا ہے۔ افغانستان میڈیا سپورٹ آرگنائزیشن کے بیان کے مطابق،
“افغان صحافیوں کے معاملے میں خاموشی موت کے مترادف ہے، اور ہر تاخیر ناقابلِ تلافی انسانی نتائج کا باعث بن رہی ہے۔”
Urgent Rally in Paris Highlights Life-Threatening Crisis for Afghanistan Journalists
— Aamaj News English (@aamajnews_EN) December 20, 2025
The Afghanistan Media Support Organization (AMSO) held a protest rally in Paris today, drawing attention to the harsh, unfair, and life-threatening situation faced by Afghanistan journalists and… pic.twitter.com/W1ZLQseH8G
ریلی میں افغانستان میں میڈیا آزادی کے خاتمے سے متعلق بین الاقوامی رپورٹس کا حوالہ بھی دیا گیا۔ اقوام متحدہ کے امدادی مشن برائے افغانستان اور انسانی حقوق کے ہائی کمشنر کے دفتر کے مطابق، اگست 2021 سے ستمبر 2024 کے درمیان صحافیوں کے خلاف 336 خلاف ورزیاں ریکارڈ کی گئیں، جن میں 256 من مانی گرفتاریاں اور 130 تشدد یا بدسلوکی کے واقعات شامل ہیں۔ یوناما نے خبردار کیا ہے کہ غیر واضح اور بدلتے ہوئے قوانین کے ذریعے صحافیوں کو ہراساں کیا جا رہا ہے اور رپورٹنگ کو جرم بنایا جا رہا ہے۔
رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے اپنی 2025 ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں افغانستان کو 180 ممالک میں 175ویں نمبر پر رکھا ہے اور اسے آزاد صحافت کے تقریباً مکمل خاتمے سے تعبیر کیا ہے۔ آر ایس ایف کے مطابق سخت پابندیوں کے باعث کئی ٹی وی چینلز بند ہو چکے ہیں یا صرف ریڈیو نشریات تک محدود ہو گئے ہیں۔
خواتین صحافیوں کی صورتحال مزید تشویشناک بتائی گئی ہے۔ انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس کے مطابق خواتین صحافیوں کی تعداد 2021 سے پہلے 2,833 تھی جو 2025 میں کم ہو کر صرف 747 رہ گئی ہے، یعنی 74 فیصد کمی۔ اسی دوران ملک کے نصف سے زائد میڈیا ادارے بند ہو چکے ہیں۔ افغانستان جرنلسٹس سینٹر نے 2025 کے پہلے چھ ماہ میں ہی 140 خلاف ورزیوں کی تصدیق کی ہے، جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 56 فیصد اضافہ ہے، اور کئی صحافیوں کو “پروپیگنڈا” کے الزامات میں ہائی سیکیورٹی جیلوں میں رکھا گیا۔
اے ایم ایس او کے مطابق جو صحافی زبردستی کابل واپس بھیجے گئے، انہیں گرفتاری، ظلم، جنسی تشدد اور دیگر سنگین زیادتیوں کا سامنا ہے، جس سے ان کے پورے خاندان خطرے میں پڑ گئے ہیں۔ اس وقت تقریباً 150 افغان صحافی انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ویزوں کے منتظر ہیں، جنہیں تنظیم نے ان کی بقا کے لیے “اہم ترین سہارا” قرار دیا ہے۔
اقوام متحدہ کی افغانستان میں نمائندہ روزا اوتونبائیوا کے مطابق،
“جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں وہ آزاد صحافت کا منظم خاتمہ ہے۔ صحافیوں کا تحفظ کوئی انتخاب نہیں بلکہ ایک ناگزیر ضرورت ہے۔”
دیکھیں: پاکستان اور ایران سے 981 افغان مہاجر خاندانوں کی وطن واپسی