افغانستان میں انسانی حقوق کے بحران پر عالمی برادری کی تشویش میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی افغانستان میں خصوصی نمائندہ روزالینڈ گانیوں نے سلامتی کونسل کو بریفنگ دیتے ہوئے ملک کی صورت حال کو انتہائی سنگین قرار دیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ خواتین و لڑکیوں پر تعلیمی، میڈیا کی آزادی پر پابندیاں اور معاشی و انسانی بحران افغانستان کو شدید متاثر کر رہا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق ملک کی نصف سے زائد آبادی اگلے برسوں میں امداد کی محتاج ہو گی۔ ثانوی و اعلیٰ تعلیم پر پابندی کے چوتھے سال میں داخل ہوتے ہوئے لاکھوں لڑکیوں کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے، جس کے اثرات کئی دہائیوں تک محسوس ہوں گے۔
دوسری جانب برطانیہ، کینیڈا، فرانس اور جرمنی سمیت 56 ممالک نے مشترکہ بیان جاری کر کے افغانستان میں بنیادی حقوق کی بحالی، لڑکیوں کی تعلیم اور عالمی قوانین کے مطابق سیاسی عمل کا مطالبہ کیا ہے۔ بیان میں افغانستان کے اندر سے اٹھنے والی اصلاحی آوازوں کی اہمیت بھی واضح کی گئی ہے۔
اقوامِ متحدہ کی نمائندہ نے دوحہ عمل کے تحت طے پانے والی سیاسی راہداری پر عمل درآمد کی ضرورت پر زور دیا جس میں خواتین کی شمولیت، انسانی حقوق کا احترام اور عالمی برادری کے ساتھ تعاون کو بنیادی اصول قرار دیا گیا ہے۔ ان کے مطابق افغانستان کا استحکام اسی وقت ممکن ہے جب وہاں کے تمام شہریوں کو برابر کے حقوق اور مواقع میسر آئیں۔