پاکستان اور افغانستان کو درپیش شدت پسندی کسی ایک ملک کا مسئلہ نہیں، مگر افغان طالبان کی جانب سے جھوٹی معلومات اور پروپیگنڈا نہ صرف علاقائی استحکام کے لیے خطرناک ہے بلکہ حقیقی دہشت گرد گروہوں کو مزید جگہ فراہم کرتا ہے۔
عالمی صحت تنظیم کے مطابق اس تشدد میں اب تک 40 ہزار افراد جاں بحق ہو چکے ہیں جبکہ 1 کروڑ 20 لاکھ سے زائد شہری اپنے گھروں سے بے دخل ہونے پر مجبور ہوئے ہیں۔
ترکی نے دہلی دھماکے سے خود کو جوڑنے کے بھارتی میڈیا کے الزامات مسترد کر دیے۔
لال قلعے کے قریب 10 نومبر کے دھماکے میں گاڑیوں کو آگ لگنے سے کئی افراد زخمی ہوئے، جبکہ آگ کی وجہ معلوم نہ ہو سکی۔
پاکستانی دفترِ خارجہ کے مطابق “طالبان حکومت عملی اقدامات کرنے کے بجائے زبانی یقین دہانیوں پر اکتفا کر رہی ہے، جس سے دہشت گردی کے خلاف علاقائی کوششوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔”
ایک سینئر پاکستانی اہلکار کے مطابق، “بات صرف ریاستوں کے درمیان ہوگی۔ افغان حکومت اگر واقعی سنجیدہ ہے تو وہ عملی اور قابلِ تصدیق کارروائی کرے۔ ہم کسی قیمت پر اپنی سلامتی پر سمجھوتہ نہیں کریں گے۔”
شہیک بلوچ جیسے کیسز نے بلوچستان میں ’’جبری گمشدگی‘‘ کے بیانیے کو متنازع بنا دیا ہے۔ ایسے متعدد شواہد سامنے آئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض ’’لاپتہ‘‘ افراد خود مسلح تنظیموں میں شامل ہو گئے۔