شمالی وزیرستان کی تحصیل میر علی کے علاقے ایاز کوٹ میں سرکاری پرائمری اسکول پر ہونے والا بم دھماکہ محض ایک تنہا واقعہ نہیں بلکہ اس منظم سلسلے کا تسلسل ہے جس میں دہشت گرد گروہ برسوں سے قبائلی اضلاع میں تعلیمی مراکز کو نشانہ بناتے رہے ہیں۔ پیر اور منگل کی درمیانی شب نامعلوم افراد نے خوشحالی ایاز کوٹ میں واقع گورنمنٹ پرائمری اسکول میں بارودی مواد نصب کیا جو رات گئے زوردار دھماکے سے پھٹ گیا۔ دھماکے کی آواز کئی کلومیٹر دور تک سنی گئی، جبکہ اسکول کی عمارت کا بڑا حصہ ملبے میں تبدیل ہوگیا۔
محکمہ تعلیم کے مطابق، اس ادارے میں 600 سے زائد بچے زیرِ تعلیم تھے، اور یہ پورے علاقے میں واحد فعال پرائمری اسکول تھا۔ حکام نے متاثرہ حصوں کو سیل کرکے متبادل تعلیمی بندوبست کے لیے ہنگامی منصوبہ بندی شروع کر دی ہے۔
تعلیم دشمنی کی منظم تاریخ
قبائلی اضلاع میں تعلیم پر حملوں کی تاریخ نئی نہیں۔ 2007 سے 2014 تک تحریکِ طالبان پاکستان کی جانب سے سیکڑوں لڑکیوں کے اسکول تباہ کیے گئے، اساتذہ پر حملے کیے گئے، اور اسی سوچ کے نتیجے میں آرمی پبلک اسکول جیسا سانحہ پیش آیا۔
2014 کے بعد ضربِ عضب اور خیبر 4 جیسے آپریشنز نے اس سلسلے کو بڑی حد تک روک دیا۔ درجنوں اسکول دوبارہ تعمیر ہوئے، کیڈٹ کالجز، آرمی پبلک اسکولز اور اسکالرشپس کے پروگرام متعارف کروائے گئے۔ مگر 2021 کے بعد افغانستان میں موجود غیرمحفوظ اور غیر حکومتی علاقوں میں موجود پناہ گاہوں کی وجہ سے شدت پسند نیٹ ورکس پھر سے متحرک ہوئے اور اسی تناظر میں خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں 2025 کے دوران دہشت گردی کے واقعات کی تعداد سینکڑوں تک پہنچ چکی ہے۔
جنگ ترقی کے خلاف – نشانہ ہمیشہ تعلیم
تجزیہ کاروں کے مطابق، اسکولوں کو نشانہ بنانے کی حکمت عملی تین بنیادی مقاصد کے ساتھ جڑی ہوتی ہے:
- ریاستی رٹ کو کمزور کرنا
- ان قبائلی برادریوں کو سزا دینا جو امن کے لیے ریاست کے ساتھ کھڑی ہیں
- لڑکیوں اور نوجوانوں کی تعلیم روک کر علاقے کو پسماندہ رکھنا
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ میر علی اور شیوا کے علاقوں میں اس نوعیت کے پے در پے حملوں کو عموماً ٹی ٹی پی یا حافظ گل بہادر گروپ سے منسلک سمجھا جاتا ہے۔ اگرچہ تازہ واقعے کی ذمہ داری کسی گروہ نے قبول نہیں کی، مگر پچھلے دو برس کے طرزِ عمل اور حملوں کے انتخاب نے مقامی آبادی کے ذہن میں شکوک مزید گہرے کر دیے ہیں۔
افغانستان کے اندر موجود پناہ گاہوں کا کردار
سیکورٹی حکام کے مطابق، تعلیم پر حملے کرنے والے شدت پسند نیٹ ورکس سرحد پار افغانستان کے غیر حکومتی علاقوں کو اپنی محفوظ پناہ گاہوں کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ وہاں سے وہ منصوبہ بندی، تربیت اور نقل و حرکت کرتے ہیں، جبکہ پاکستان کے اندر تعلیمی مراکز سمیت نرم اہداف کو نشانہ بناتے ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ ہر بار جب پاکستان میں انسدادِ دہشت گردی کا دباؤ بڑھتا ہے تو ردعمل کے طور پر یہ گروہ قبائلی اضلاع کے اسکولوں اور ترقیاتی منصوبوں کو نشانہ بناتے ہیں۔
چھ سو بچوں کے مستقبل پر حملہ
ایاز کوٹ اسکول دھماکے نے 600 بچوں کا تعلیمی مستقبل ایک رات میں منجمد کر دیا۔ مقامی والدین اور عمائدین نے اس حملے کو بچوں کے مستقبل پر براہِ راست حملہ قرار دیا۔ ایک بزرگ نے کہا:
“یہ اسکول ہمارے بچوں کے لیے امید کی آخری کرن تھا۔ اس کی تباہی نے پورا علاقہ سوگوار کر دیا ہے۔”
پولیس کے مطابق، جائے وقوعہ سے شواہد جمع کر لیے گئے ہیں جبکہ بی ڈی یو نے ابتدائی جائزے میں بتایا ہے کہ دھماکہ ریموٹ یا ٹائمر ڈیوائس کے ذریعے کیا گیا۔
حالیہ سلسلہ – ایک سال میں کئی تعلیمی ادارے نشانہ
یہ واقعہ ایسے وقت پیش آیا ہے جب چند ہفتے قبل جنوبی وزیرستان میں کیڈٹ کالج وانا پر دہشت گرد حملہ ہوا تھا۔
اکتوبر میں لکی مروت میں لڑکیوں کے اسکول کو دھماکے سے نقصان پہنچا، جبکہ گزشتہ سال مئی میں شمالی وزیرستان کی تحصیل شیوا میں ایک نجی اسکول تباہ کیا گیا۔ اسی طرح 2023 میں میر علی میں دو سرکاری لڑکیوں کے اسکول بھی بم دھماکوں میں تباہ ہوئے۔
ریاست کا مؤقف – تعلیم کسی صورت رکے گی نہیں
ضلعی انتظامیہ نے واقعے کو کھلی “تعلیم دشمن کارروائی” قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ حملے خطے میں ترقی کے سفر کو روکنے کی منظم کوشش ہیں۔
سیکورٹی حکام نے واضح کیا ہے کہ پاکستان ایسی کارروائیوں سے ڈرنے والا نہیں۔ فوج اور قانون نافذ کرنے والے ادارے علاقہ بارہا کلیئر کرچکے ہیں، اسکول دوبارہ تعمیر کیے جا چکے ہیں، اور ریاست عزم رکھتی ہے کہ تعلیم کا سلسلہ جاری رہے گا، چاہے دشمن کتنی ہی بار اس چراغ کو بجھانے کی کوشش کرے۔
مقامی آبادی کی مزاحمت
میر علی اور ایاز کوٹ میں لوگوں نے شدید غم و غصے کا اظہار کیا اور واضح کیا کہ وہ انتہاپسندوں کے آگے جھکنے والے نہیں۔ ہر دھماکے کے بعد مقامی لوگ دوبارہ کھڑے ہوئے ہیں، نئے اسکول بنائے ہیں، اور اپنے بچوں کو تعلیم سے جوڑے رکھا ہے۔