نائن الیون کے بعد پاکستان دو دہائیوں سے دہشت گردی کے عفریت سے نبرد آزما ہے۔ امریکہ کے افغانستان پر حملے نے دہشت گردی ختم نہیں کی بلکہ افغان طالبان اور غیر ملکی شدت پسندوں کو پاکستان کی سرزمین پر دھکیل دیا۔ عرب، ازبک اور چیچن جنگجو سابقہ فاٹا میں مقامی قبائل کی مہمان نوازی کا فائدہ اٹھا کر آباد ہو گئے۔
ابتدا میں ریاست نے قبائلی روایت کے احترام میں طاقت کا استعمال نہ کیا، مگر بعد ازاں جب اسلامی موومنٹ آف ازبکستان کے دہشت گردوں نے جنوبی وزیرستان میں پناہ لی تو 2004 میں فوجی کارروائی کی گئی۔ اس کارروائی کے دوران مقامی حمایت یافتہ شدت پسندوں نے شدید مزاحمت کی۔ انہی گروہوں سے نیک محمد، عبداللہ محسود، نذیر اور بیت اللہ محسود جیسے کمانڈر ابھرے جنہوں نے بعد میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی بنیاد رکھی۔
ٹی ٹی پی نے مذہب کے نام پر قبائلی معاشرت اور جنگجو روایت کا سہارا لے کر نوجوانوں کو بھرتی کیا۔ اس پورے عرصے میں سیاسی قیادت کی جانب سے واضح موقف کا فقدان رہا۔ صرف بے نظیر بھٹو کھل کر دہشت گردی کو پاکستان کے لیے وجودی خطرہ قرار دیتی رہیں۔
2008 میں عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) نے خیبرپختونخوا میں اقتدار سنبھالا تو دہشت گردوں سے مذاکرات کی ناکامی کے بعد فوجی کارروائیوں کی بھرپور حمایت کی۔ اس کے بعد 2009 میں آپریشن راہِ راست اور 2014 میں ضربِ عضب نے دہشت گردوں کا زور توڑ دیا۔
تاہم موجودہ دور میں افغانستان میں طالبان حکومت اور ملک کے اندر سیاسی تقسیم نے صورتحال پھر سنگین کر دی ہے۔ تحریک انصاف کی وفاق مخالف پالیسیوں اور مذاکراتی بیانیے نے ریاستی کوششوں کو نقصان پہنچایا ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ ہر امن معاہدے کے بعد ٹی ٹی پی نے طاقت بڑھائی، علاقائی کنٹرول حاصل کیا اور معاہدے توڑ دیے۔ آج پھر ایک مشترکہ قومی حکمتِ عملی کی اشد ضرورت ہے۔ سیاسی انتشار کی موجودگی میں دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنا ممکن نہیں۔
نوٹ: یہ آرٹیکل سب سے پہلے 19 اکتوبر 2025 کو ایکسپریس ٹریبیون میں شائع ہوا۔ کاپی رائٹ حقوق ایکسپریس ٹریبیون اور ابراہیم خلیل محفوظ رکھتے ہیں۔
دیکھیں: افغانستان امن چاہتا ہے مگر اپنی خود مختاری پر سمجھوتہ نہیں کرے گا: ملا یعقوب