اٹلی حکومت ان الزامات کی تحقیقات کر رہی ہے کہ جنگ کے دوران مختلف قومیت کے وار ٹورسٹ شہریوں کو مارنے کے لیے سرب فوجیوں کو ادائیگی کرتے رہے اور بچوں کو نشانہ بنانے پر اضافی رقم وصول کرتے تھے۔
ذرائع کے مطابق دولت سے مالا مال غیر ملکیوں نے 1992 سے 1996 میں سراجیو کے محاصرے کے دوران ہفتہ وار سنائپر بننے کے لیے لاکھوں پاؤنڈ ادا کیے اور شہریوں کو نشانہ بنایا۔ یہ غیر ملکی افراد جو اٹلی، امریکہ، روس اور دیگر ممالک سے آئے تھے انہوں نے بوسنیا کے شہریوں کو تفریح کے لیے مارا تھا۔
تحقیقات کے مطابق ان کا مقصد یا تو سرب مقصد کی حمایت تھی، محض خون کے شوق کا اظہار تھا، یا پھر دونوں وجوہات تھیں۔ جبکہ سربیا نے الزامات کی تردید کی ہے۔
اٹلی کے محققین کے مطابق قتل کے لیے قیمتوں کی فہرست موجود تھی، جس میں بچوں اور مردوں کو مارنے پر زیادہ ادائیگی کی جاتی تھی۔ امیتھور سنائپرز نے اس خطرناک کھیل میں حصہ لینے کے لیے موجودہ دور کے حساب سے تقریباً 80,000 سے 100,000 یورو (تقریباً 80,000 پاؤنڈ) ادا کیے، جیسا کہ اخبار لا ری پبلک نے بھی رپورٹ کیا ہے۔
تحقیق کے مطابق شہری شمال مشرقی سرحدی شہر ٹریسٹ میں جمع ہوتے اور سراجیو کے گرد و نواح کے پہاڑوں میں لے جاتے جہاں محاصرہ جاری رہا۔ اس دوران تقریباً 11,500 افراد ہلاک ہوئے اور یہ محاصرہ یورپی تاریخ کی طویل ترین لڑائی میں شمار کیا جاتا ہے۔
مختلف قوموں کے وار ٹورسٹ بشمول امریکی اور روسی شہری بوسنیائی سرب لشکر کے تحت شہریوں پر گولیان چلانے کرنے کی اجازت حاصل کرتے تھے۔ میلان کے پراسیکیوٹرز ایسے اطالوی شہریوں کی شناخت کر رہے ہیں جو قتل عام میں ملوث تھے۔ کہا یہ جارہا ہے کہ انہیں ظالمانہ فعل یعنی قتل کے الزامات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

خیال رہے کہ یہ تحقیقات کارابینیری پولیس کی معاونت سے کی جا رہی ہیں جو دہشت گردی اور جرائم کے خلاف کارروائی کرتا ہے۔ ماضی میں بھی ایسے الزامات سامنے آئے مگر اب یہ دوبارہ ظاہر ہورہے ہیں کیونکہ سابق سراجیو کی میئر بنجامینا کاریچ نے نامعلوم افراد کے خلاف کیس دائر کیا ہوا ہے۔
صحافی ایزیو گاوازینی، دو وکلا اور ایک سابق جج کی مدد سے اس کیس کو لے کر چل رہے ہیں۔ گاوازینی کے مطابق قتل کی ادئیگی کی فہرست میں بچوں کی سب سے زیادہ قیمت دی گئی دوسرے نمبر پر مرد کے قتل زیادہ قیمت لگائی گئی تھے۔ پھر آخر میں بزرگ لوگ جنہیں مفت مارا جا سکتا تھا۔
گاوازینی نے بتایا کہ وہ اس بات سے حیران اور خوف زدہ ہیں کہ امیر طبقہ متوسط طبقے کے لوگوں کو بوسنیا میں لے جا کر محض تفریح کے لیے انسان مارنے کے لیے رقم ادا کرتے تھے۔ غیر ملکی شہری جو شہریوں کو نشانہ بنانے کے لیے سراجیو آئے، اپنا کردار ادا کرکے چلے گئے اور سزا سے بھی بچ گئے اور قتلِ عام سرب انٹیلی جنس کے تعاون سے کیا گیا تھا۔

سابقہ بوسنیائی انٹیلی جنس اہلکار کی گواہی بھی دیکھی جائے گی جس نے سرب فوجی قیدیوں سے معلومات حاصل کیں۔ سابقہ ایجنٹ ایڈن سباسک کے مطابق تفتیش کے دوران سرب فوجی نے کہا کہ اطالوی شہریوں نے فرنٹ لائن پر سنائپر رائفلز سے فائر کرنے کے لیے ادائیگی کی۔
سابق امریکی میرین، جان جارڈن نے 2007 میں یو این کے قیام شدہ بین الاقوامی ٹریبونل میں گواہی دی کہ ٹورسٹ شوٹرز سراجیو آئے تاکہ شہریوں پر گولیوں کا نشانہ بناکر تفریح کرسکیں۔ اطالوی انٹیلی جنس ایجنسی نے بھی اس وقت ہفتہ وار سنائپرز کی موجودگی کی تصدیق کی تھی۔
اسی طرح روسی نیشنل اسٹ ایڈوارڈ لیمونوف کا کیس بھی معروف ہے جو 1992 میں محاصرے کے دوران سراجیو پر مشین گن سے فائر کیے۔ وہ 2020 میں ماسکو میں 77 سال کی عمر میں وفات پا گئے۔
اسی طرح دوہزار بائیس میں سلووینیا کے ڈائریکٹر میران زوپانک کی دستاویزی فلم سراجیو سفاری نے بھی ایسے ہی الزامات عائد کیے۔ ایک سابق امریکی انٹیلی جنس اہلکار نے بتایا کہ میں خود دیکھا کہ غیر ملکی شہری شہریوں کو مارنے کے لیے ادائیگی کر رہے تھے۔