اگست 2021 میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان نے بے مثال اسٹریٹیجک صبر اور تحمل کا مظاہرہ کیا۔ اسلام آباد نے افغانستان کو انسانی امداد، تجارت میں رعایتوں، علاج اور تعلیم کے ویزوں، اور کراچی و گوادر کے بلا تعطل استعمال سمیت ہر ممکن سہولت فراہم کی۔ توقع یہ تھی کہ طالبان اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال ہونے نہیں دیں گے۔ لیکن طالبان نے اس اعتماد کو مسلسل مجروح کیا۔ افغان سرزمین تحریک طالبان پاکستان کے محفوظ ٹھکانوں میں تبدیل ہو گئی، جو پاکستان میں سینکڑوں شہریوں اور اہلکاروں کی ہلاکتوں کے ذمہ دار ہیں۔ استنبول مذاکرات سمیت اعلیٰ سطحی سفارتی کوششوں کے باوجود طالبان وعدوں پر عمل کرنے میں ناکام رہے جس کے باعث پاکستان کو دفاعی اقدامات کرنے پڑے۔ نقصانات میں واضح عدم توازن بھی سامنے آیا۔
پاکستان کی جانب سے تجارتی پابندیاں، بارڈر پروٹوکول سخت کرنا اور مہاجرین کی واپسی جیسے اقدامات سے اگرچہ معمولی معاشی اثرات پڑے، لیکن افغانستان کی تجارت 2023 کے 6.5 ارب ڈالر سے گھٹ کر 2025 میں صرف 1 ارب ڈالر رہ گئی، یعنی تقریباً 85 فیصد کمی۔ یہ طالبان کی پالیسی ناکامی اور غلط اسٹریٹیجک اندازوں کا نتیجہ ہے۔ طالبان کی ناکامی نے 2,640 کلومیٹر طویل ڈیورنڈ لائن کو دوبارہ خطرناک زون بنا دیا۔ سرحد پار حملوں میں تیزی آئی، جن میں اورکزئی میں 11 پاکستانی اہلکاروں کی شہادت بھی شامل ہے۔ پاکستان کا چار سالہ تحمل اس کی سفارتی ترجیح کا ثبوت تھا، مگر طالبان کی خاموشی نے اسے دفاعی ردعمل پر مجبور کیا۔ 2021 سے 2024 تک ٹی ٹی پی حملوں میں مسلسل اضافہ ہوتا گیا۔ 2021 سے 2022 کے دوران تقریباً 282 حملے ہوئے جن میں 609 پاکستانی شہریوں اور اہلکاروں نے جانیں گنوائیں۔ 2022 سے 2023 میں حملے 367 تک بڑھ گئے اور ہلاکتیں ہزار سے تجاوز کر گئیں، جبکہ پاکستان کو ماہانہ پچاس ملین ڈالر تک کا تجارتی نقصان برداشت کرنا پڑا۔ 2023 سے 2024 میں حملوں کی تعداد 482 تک جا پہنچی جن میں بڑے خودکش حملے بھی شامل تھے، اور 1,081 پاکستانی جانیں ضائع ہوئیں۔
تین ہزار سے زائد ٹرک مختلف بارڈرز پر پھنسے رہے۔ اس تمام صورتحال نے واضح کر دیا کہ پاکستان کا ہر قدم دفاعی نوعیت کا تھا جبکہ طالبان کی عدم دلچسپی ان حملوں کا بنیادی سبب تھی۔ طالبان کی خاموش حمایت اور سرحدی کمزوریوں نے ٹی ٹی پی کو جنوبی خیبر پختونخوا اور سابقہ فاٹا کے قریب مضبوط ٹھکانے بنانے کا موقع دیا۔ طالبان نہ ڈیورنڈ لائن کو تسلیم کر رہے ہیں، نہ باڑ کی حمایت کر رہے ہیں، نہ ٹی ٹی پی کو کنٹرول کر رہے ہیں۔
قطر، ترکی اور استنبول مذاکرات سمیت سفارتی کوششیں طالبان کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ناکام ہوئیں اور پاکستان کو یکطرفہ اقدامات کرنا پڑے۔ پاکستان نے تجارت پر کنٹرول کو سیکیورٹی ناگزیر سمجھتے ہوئے کو سخت نافذ کیا۔ افغانستان اگرچہ ایران، چابہار اور وسطی ایشیا کی طرف جھکاؤ دکھا رہا ہے لیکن یہ تمام راستے پاکستان کے مقابلے میں لمبے، مہنگے، غیر محفوظ اور کم گنجائش کے حامل ہیں۔ پاکستان نے ایک ملین سے زائد غیر قانونی افغان شہریوں کو واپس بھیجا جس سے طالبان پر دباؤ بڑھا کہ وہ ٹی ٹی پی کے خلاف فیصلہ کن اقدامات کریں، جبکہ اس فیصلے نے افغان انتظامی نظام پر مزید دباؤ بڑھا دیا۔ 2023 میں جزوی تجارتی بندش سے پاکستان کو محدود نقصان ہوا، تاہم 2024 میں سخت بارڈر پروٹوکول نے تجارت کو 2.3 ارب ڈالر تک محدود کر دیا۔ 2025 میں استنبول مذاکرات کی ناکامی کے بعد طالبان کے مسلسل انکار کے نتیجے میں سرحد مکمل بند کی گئی اور افغان تجارت صرف 1 ارب ڈالر تک رہ گئی، ہزاروں ٹرک پھنس گئے، جبکہ پاکستان کو نسبتاً کم نقصان اور زیادہ سیکیورٹی فوائد حاصل ہوئے۔
پھل، سبزیاں، ادویات اور کوئلے سے لدے ہزاروں ٹن سامان بارڈر پر خراب ہو گیا، جس سے روزانہ ڈھائی ملین ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا۔ طالبان کی ناکامی نے ایک بڑے انسانی بحران کو جنم دیا جسے وہ خود پاکستان کے اقدامات کا نتیجہ قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ افغانستان کا ایران اور وسطی ایشیا کی طرف جھکاؤ بھی مؤثر ثابت نہیں ہوا۔ چابہار کی گنجائش محدود ہے، راستے مہنگے اور طویل ہیں، جبکہ وسطی ایشیائی راہداریوں پر امن و استحکام کا انحصار خود طالبان پر ہے جو اسے یقینی بنانے میں ناکام ہیں۔ ایران سے تجارت اگرچہ 1.64 ارب ڈالر تک پہنچتی ہے لیکن یہ پاکستان کا متبادل نہیں بن سکتی۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان نے چار سال تک صبر اور سفارت کاری کو ترجیح دی۔ طالبان نے افغان سرزمین کو پاکستان مخالف گروہوں کے لیے کھلا چھوڑ دیا۔ پاکستان کا ردعمل دفاعی نوعیت کا تھا، جارحانہ نہیں۔ افغانستان کی معاشی تباہی طالبان کی غلط حکمت عملی اور ناکامیوں کا نتیجہ ہے۔ ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی اور ڈیورنڈ لائن کی باقاعدہ تسلیم کیے بغیر حالات بہتر نہیں ہوسکتے۔ طالبان کی پالیسی ناکامی نے افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف ایک ہتھیار بنا دیا، مگر سب سے بڑا نقصان خود افغانستان کو پہنچا جہاں تجارت تباہ ہو گئی، خزانہ خالی ہو گیا، بارڈر بند ہے، ٹرک پھنسے ہیں اور مہنگائی مسلسل بڑھ رہی ہے۔
اگر طالبان نے فوری طور پر ٹی ٹی پی کے خلاف فیصلہ کن کارروائی نہ کی تو افغانستان کا معاشی اور ریاستی بحران مزید سنگین ہو جائے گا جبکہ پاکستان اپنی دفاعی پوزیشن برقرار رکھے گا۔