اقوامِ متحدہ کے خصوصی نمائندہ برائے انسدادِ تشدد، ایلس جل ایڈورڈز، کی جانب سے ایک پریس ریلیز جاری کی گئی جس میں پاکستان پر زور دیا گیا کہ وہ سابق وزیراعظم عمران خان کی مبینہ تنہائی میں قید اور جیل کی صورتحال پر نظرِ ثانی کرے۔
بیان میں دعویٰ کیا گیا کہ عمران خان کو روزانہ طویل اوقات تک تنہائی میں رکھا گیا، نگرانی سخت ہے، ملاقاتوں پر پابندیاں ہیں اور صحت کے حوالے سے خدشات موجود ہیں۔
اسپیشل ریپورٹر کی قانونی حیثیت
یہ بیان کسی اقوامِ متحدہ کے ادارے، انسانی حقوق کونسل یا او ایچ سی ایچ آر کا باضابطہ مؤقف نہیں بلکہ ایک آزاد اسپیشل ریپورٹر کی رائے ہے، جو انسانی حقوق کونسل کے تحت کام کرتے ہیں مگر اقوامِ متحدہ کی نمائندگی نہیں کرتے۔
معروف صحافی شہاب اللہ یوسفزئی نے ایچ ٹی این سے گفتگو میں کہا کہ “اسپیشل ریپورٹرز کی حیثیت ماہرین کی ہوتی ہے، جج یا تفتیشی افسران کی نہیں۔ ان کے بیانات رائے اور وکالت کے زمرے میں آتے ہیں، فیصلے کے نہیں۔”
یہ بیان نہ تو اقوامِ متحدہ کا فیصلہ ہے، نہ کوئی قانونی حکم، اور نہ ہی پاکستان پر کسی قسم کی پابندی یا ذمہ داری عائد کرتا ہے۔ اس کی کوئی قانونی یا عدالتی حیثیت نہیں اور یہ کسی داخلی عدالتی عمل کو کالعدم نہیں کر سکتا۔
کون سے شواہد پیش کیے گئے؟
بیان میں کسی عدالتی فیصلے، طبی بورڈ کی رپورٹ، جیل معائنے یا فیلڈ مشن کا حوالہ نہیں دیا گیا۔ متن میں بار بار “موصول ہونے والی معلومات کے مطابق” جیسے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں، جو اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ دعوے ثانوی ذرائع، وکلا کی بریفنگز یا تیسرے فریق کی رپورٹس پر مبنی ہیں۔
شہاب اللہ یوسفزئی کے مطابق “بین الاقوامی قانون میں تشدد کا تعین صرف الزامات سے نہیں ہوتا بلکہ آزاد معائنہ، میڈیکل اسیسمنٹ اور عدالتی جانچ لازم ہوتی ہے، جو اس بیان میں موجود نہیں۔”
قانونی تناظر
پاکستان میں زیرِ حراست افراد کے حقوق آئین، جیل قواعد اور عدالتی نگرانی کے تحت طے ہوتے ہیں۔ عمران خان کی حراست عدالتی احکامات کے تحت ہے اور جیل انتظامیہ سکیورٹی خدشات کی بنیاد پر قید کے انتظامات کرتی ہے، جو دنیا بھر میں ہائی پروفائل قیدیوں کے لیے ایک معمول کا عمل ہے۔
عالمی تناظر
امریکہ، برطانیہ، فرانس اور دیگر ممالک میں بھی ہائی رسک یا ہائی پروفائل قیدیوں کے لیے محدود ملاقاتیں، نگرانی اور علیحدہ سیلز ایک تسلیم شدہ پریکٹس ہے۔ ایسے اقدامات کو خود بخود تشدد یا غیر انسانی سلوک قرار نہیں دیا جاتا جب تک آزاد ادارے اس کی تصدیق نہ کریں۔
ریاستی تعاون اور ریکارڈ
اقوامِ متحدہ کے ریکارڈ کے مطابق پاکستان اسپیشل پروسیجرز کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہا ہے اور ماضی میں متعدد سوالناموں اور مواصلات کا جواب دے چکا ہے، جس سے کسی قسم کی ادارہ جاتی عدم تعاون کا تاثر درست ثابت نہیں ہوتا۔
شہاب اللہ یوسفزئی نے مزید کہا کہ “جب کوئی ریاست جواب دے رہی ہو اور مشینی تعاون موجود ہو تو یکطرفہ بیانیہ قانونی سے زیادہ سیاسی اثر رکھتا ہے۔”
آگے کیا ہوگا؟
خود اسپیشل ریپورٹر نے بیان میں کہا ہے کہ معاملہ فالو اَپ کے مرحلے میں ہے، یعنی نہ کوئی حتمی نتیجہ نکالا گیا ہے اور نہ کسی خلاف ورزی کا تعین ہوا ہے۔ اس قسم کے بیانات عموماً سفارتی اور میڈیا سطح پر محدود اثر رکھتے ہیں اور کسی لازمی بین الاقوامی کارروائی کی بنیاد نہیں بنتے۔
مجموعی جائزہ
ماہرین کے مطابق اس بیان کو ایک غیر پابند، غیر تصدیق شدہ اور قانونی اثر سے خالی رائے کے طور پر دیکھنا چاہیے۔
بین الاقوامی انسانی حقوق کے نظام میں اصل وزن فیصلوں، معاہداتی اداروں اور عدالتی احکامات کو حاصل ہوتا ہے، نہ کہ انفرادی ماہرین کے پریس بیانات کو ایسے اختیارات حاصل ہوتے ہیں۔
دیکھیں: افغانستان بحران کے دہانے پر، خواتین کی تعلیم اور انسانی حقوق پر عالمی تشویش میں اضافہ