ایران نے افغانستان کی صورتحال پر ایک اہم علاقائی اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا ہے، ایسے وقت میں جب پاکستان اور طالبان انتظامیہ کے درمیان تناؤ اپنی بلند ترین سطح پر ہے۔ سرحد پار دہشت گردی، ٹی ٹی پی کے محفوظ ٹھکانوں اور پاکستان پر بڑھتے حملوں نے اسلام آباد کی سکیورٹی تشویش میں اضافہ کیا ہے، جبکہ کابل کے ساتھ سفارتی رابطے شدید دباؤ کا شکار ہیں۔ ایران خود کو ایک علاقائی ’’پل‘‘ کے طور پر پیش کرتے ہوئے اس بحران میں ثالثی کا کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔
اجلاس میں پاکستان، چین، روس اور وسطی ایشیائی ریاستوں کی شرکت اس بات کی علامت ہے کہ افغانستان کے مستقبل پر اب خطے کے ممالک براہ راست ذمہ داری سنبھال رہے ہیں اور غیر مغربی دنیا ایک نئی سفارتی حکمت عملی تشکیل دے رہی ہے۔
ایرانی میڈیا کے مطابق نائب وزیرِ خارجہ اور ترجمان علی باقری کنی نے کہا کہ افغانستان کے مسائل کا مستقل حل صرف خطے کے اندر موجود ممالک ہی نکال سکتے ہیں، اور ایران اس تعاون کو مضبوط بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کرے گا۔ تہران کی یہ کوشش ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب خطے میں ٹی ٹی پی، داعش خراسان، اور شمالی افغانستان میں سرگرم ای ٹی آئی ایم/ای ٹی ایل ایف جیسے گروہوں کی موجودگی خطے کی مجموعی سکیورٹی کے لیے بڑا خطرہ بن چکی ہے۔
پاکستان بارہا کہہ چکا ہے کہ طالبان انتظامیہ کی جانب سے ٹی ٹی پی کے خلاف مؤثر کارروائی نہ ہونے کی وجہ سے سرحد پار حملے اور عسکریت پسندی میں اضافہ ہوا ہے، جس کا اثر پورے خطے پر پڑ رہا ہے۔
چین اور روس بھی افغانستان میں دہشت گرد نیٹ ورکس کی موجودگی اور پھیلاؤ پر گہری تشویش رکھتے ہیں۔ چین کو بالخصوص ای ٹی آئی ایم/ای ٹی ایل ایف کے بڑھتے روابط سے خطرہ ہے، جبکہ روس اور تاجکستان کو شمالی افغانستان میں داعش اور دیگر گروہوں کے قدم جمانے پر پریشانی ہے۔
وسطی ایشیائی ریاستیں ممکنہ دراندازی، اسمگلنگ اور منشیات کے بہاؤ سے نمٹنے کے لیے مشترکہ حکمت عملی کی خواہاں ہیں۔ ایسے ماحول میں ایران کا یہ اجلاس خطے کے ایک نئے کثیر قطبی سکیورٹی فریم ورک کی طرف اشارہ کرتا ہے، جس میں علاقائی ممالک مغربی طاقتوں کے کم ہوتے اثر کے بعد افغانستان کی ذمہ داری اپنے ہاتھ میں لے رہے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ افغانستان کی عدم استحکام کی قیمت سب سے زیادہ پڑوسی ممالک کو چکانا پڑتی ہے، اسی لیے وہ اب مشترکہ پالیسی اور عملی تعاون کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ایران کا یہ اجلاس اس حقیقت کو مزید نمایاں کرتا ہے کہ افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ اب خطے کے ممالک ہی کریں گے، کیونکہ دہشت گرد گروہوں کی سرگرمیاں، سرحدی تناؤ اور سکیورٹی خطرات پورے برِصغیر اور وسطی ایشیا کے امن کے لیے چیلنج بن چکے ہیں۔