افغانستان کے سب سے بڑے بزنس ٹائیکون اور افغان چیمبر آف کامرس کے سابق سربراہ خان جان الکوزئی نے اس حکومتی فیصلے کو خودکشی کے مترادف قرار دیا ہے۔

November 14, 2025

قومی اسمبلی نے مسلح افواج سے متعلق اہم ترامیم کی منظوری دے دی ہے، جس کے بعد آرمی چیف کو چیف آف ڈیفنس فورسز کا اضافی عہدہ بھی مل جائے گا

November 14, 2025

ایوانِ صدر میں ہونے والی تقریب میں وفاقی آئینی عدالت کے پہلے چیف جسٹس امین الدین خان سے آج صدر مملکت آصف علی زرداری حلف لیں گے

November 14, 2025

افغان طالبان کی وزارتِ عدل نے 36 لاکھ 86 ہزار مربع میٹر سے زائد زمین کو سرکاری ملکیت قرار دیا ہے جسکے بعد غزنی کے کے ہزاروں رہائشی شدید مسائل کا شکار ہیں

November 14, 2025

جامعہ صدیقیہ کراچی کے مہتمم مولانا منظور مینگل تعزیت کے لیے کراچی سے قلات روانہ ہوئے، دورانِ سفر بی ایل اے کے مسلح افراد نے راستہ بند کردیا

November 14, 2025

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نئی امریکی پابندی نے بھارت کے “ذمہ دار ایٹمی ریاست” کے دعوے کو نہ صرف کمزور کیا ہے بلکہ امریکا اور بھارت کے اسٹریٹیجک تعلقات میں بھی نئی اخلاقی و ساکھ کے بحران کو جنم دیا ہے۔

November 13, 2025

افغانستان کا پاکستان سے تجارتی انحصار ختم کرنے کا اعلان: کیا افغانستان اس کا متحمل ہو سکتا ہے؟

افغانستان کے سب سے بڑے بزنس ٹائیکون اور افغان چیمبر آف کامرس کے سابق سربراہ خان جان الکوزئی نے اس حکومتی فیصلے کو خودکشی کے مترادف قرار دیا ہے۔

[read-estimate]

افغانستان کا پاکستان سے تجارتی انحصار ختم کرنے کا اعلان: کیا افغانستان اس کا متحمل ہو سکتا ہے؟

اگر افغانستان نے اپنی تجارتی پالیسی کو زمینی حقائق سے ہم آہنگ نہ کیا تو آنے والے مہینوں میں اشیاء کی قلت، مہنگائی، بیروزگاری، اور اقتصادی تباہی کی نئی لہر ملک کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔

November 14, 2025

حالیہ پاک افغان سرحدی جھڑپوں، سفارتی کشیدگی، اور مذاکرات کے تین غیر نتیجہ خیز ادوار کے بعد افغانستان اور پاکستان کے درمیان تجارتی تعلقات خطرناک موڑ پر پہنچ گئے ہیں۔ اسلام آباد اور کابل کے درمیان جاری مذاکرات ناکام ہونے کے بعد افغان حکومت نے پاکستان پر تجارتی انحصار ختم کرنے اور متبادل راستے تلاش کرنے کا اعلان کیا ہے۔ افغان نائب وزیر اعظم برائے اقتصادی امور ملا عبدالغنی برادر نے کابل میں صنعت کاروں اور تاجروں سے خطاب کرتے ہوئے ہدایت دی کہ وہ فوری طور پر پاکستان کے راستے تجارت ختم کر کے دیگر ممالک کے ساتھ متبادل راستے تلاش کریں۔

ملا عبدالغنی برادر نے اپنے خطاب میں کہا کہ “آج کے بعد جو تاجر پاکستان کے راستے درآمدات یا برآمدات جاری رکھیں گے، اگر انہیں مستقبل میں کوئی مسئلہ پیش آیا تو اسلامی امارت ان کی کوئی مدد نہیں کرے گی۔” انہوں نے کہا کہ پاکستان اگر تجارتی راستے کھلے رکھنا چاہتا ہے تو اسے بین الاقوامی ضمانتیں دینی ہوں گی کہ ان راستوں کو کسی بھی سیاسی یا سکیورٹی بنیاد پر بند نہیں کیا جائے گا۔ برادر کے مطابق، “اگر پاکستان حقیقی طور پر تجارت کا خواہشمند ہے تو اسے یہ گارنٹی دینا ہوگی کہ تجارتی راستے کبھی بند نہیں کیے جائیں گے۔”

ذرائع کے مطابق افغانستان اب وسطی ایشیائی ممالک، ایران اور ترکی کے ذریعے نئی تجارتی راہیں کھولنے کی کوشش کر رہا ہے۔ افغان حکومت کا مؤقف ہے کہ پاکستان کے راستے تجارت کے بار بار تعطل نے ملک کی معیشت کو غیر یقینی صورتحال سے دوچار کر دیا ہے، اس لیے اسے متبادل آپشنز کی ضرورت ہے۔

تاہم، اقتصادی ماہرین اور تاجر رہنما اس فیصلے کو غیر حقیقت پسندانہ اور تباہ کن قرار دے رہے ہیں۔

خان جان الکوزئی کا سخت مؤقف: “افغان تاجروں کا معاشی قتل عام کیا جا رہا ہے”

افغانستان کے سب سے بڑے بزنس ٹائیکون اور افغان چیمبر آف کامرس کے سابق سربراہ خان جان الکوزئی نے اس حکومتی فیصلے کو خودکشی کے مترادف قرار دیا ہے۔ کابل میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ “افغانستان کی پاکستان کے ساتھ تجارت معطل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ہماری معیشت اپنے خاتمے کی طرف بڑھ رہی ہے، اور یہ تاجروں کا معاشی قتل عام ہوگا۔”

الکوزئی نے کہا کہ افغانستان کے تاجر، صنعتکار اور مزدور پہلے ہی بدترین مالی بحران سے دوچار ہیں۔ “اگر پاکستان کے ساتھ تجارت بند ہوگئی تو افغانستان کی فیکٹریاں بند ہوجائیں گی، اشیائے خور و نوش کی قیمتیں کئی گنا بڑھ جائیں گی اور ملک مکمل طور پر اقتصادی انارکی میں چلا جائے گا۔”

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ افغانستان میں موجود تقریباً 500 بڑی فیکٹریوں میں سے 490 خان جان الکوزئی کی ملکیت ہیں یا ان کے تجارتی نیٹ ورک سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ “ہم افغان ملت اپنی عزت نہیں بیچ سکتے، مگر ہمیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ اگر پاکستان سے تجارتی تعلقات ختم ہوئے تو ہماری اپنی بقا خطرے میں پڑ جائے گی۔”

الکوزئی نے اپنی تقریر میں کہا کہ”ہم پاکستان پر ہر طرح کا حق رکھتے ہیں۔ ہمارا اپٹا معاہدہ اب بھی برقرار ہے اور پاکستان کو بین الاقوامی اصولوں کے مطابق خشکی میں گھرے ملکوں کو تجارتی راستے دینے کی ذمہ داری ادا کرنی چاہیے۔ ہم دریاے ہند سے استفادہ کا حق رکھتے ہیں کیونکہ یہ سمندر پاکستان کا نہیں بلکہ پوری دنیا کا ہے۔”

سرحدی بندش اور اربوں کا نقصان

پاک افغان سرحد گزشتہ 32 دنوں سے مکمل طور پر بند ہے، اور تجارتی سرگرمیاں مفلوج ہو چکی ہیں۔ طورخم، چمن، غلام خان، انگور اڈہ اور دند پتان جیسے اہم تجارتی راستے مکمل طور پر غیر فعال ہیں۔ اطلاعات کے مطابق تقریباً 8 ہزار ٹرک دونوں اطراف پھنسے ہوئے ہیں جن میں 50 سے 70 ملین ڈالر کے سامان کے خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔

افغانستان اور پاکستان کے درمیان سالانہ دوطرفہ تجارت کا حجم تقریباً 1.2 ارب ڈالر ہے جس میں پاکستان کا حصہ 70 فیصد سے زائد ہے۔ پاکستان سے افغانستان کو ادویات، خوراک، کپڑا، تعمیراتی سامان اور تیل برآمد کیا جاتا ہے جبکہ افغانستان سے پاکستان کو خشک میوہ جات، جڑی بوٹیاں، کوئلہ اور سبزیاں درآمد کی جاتی ہیں۔ ان شعبوں سے تقریباً ڈیڑھ لاکھ افراد براہ راست وابستہ ہیں جو اب بے روزگاری کے خطرے سے دوچار ہیں۔

افغان چیمبر آف کامرس کے مطابق تجارت بند ہونے سے دونوں ممالک کو ہر ماہ تقریباً 200 ملین ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔

شاہد حسین: “افغانستان کی معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان ہوگا”

پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے وائس چیئرمین شاہد حسین نے ایچ ٹی این سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان کی تجارت کا 60 فیصد پاکستان پر منحصر ہے۔ “افغانستان ایک لینڈ لاکڈ ملک ہے، اس کے پاس کوئی سمندری راستہ نہیں، اور نہ ہی ایسی لاجسٹک سہولیات ہیں جن سے وہ ایران یا وسطی ایشیا کے ذریعے مؤثر تجارت کر سکے۔”

انہوں نے گفتگو میں کہا کہ “اگر افغانستان کے ساتھ تجارتی تعلقات معطل رہتے ہیں تو سب سے زیادہ نقصان افغانستان کو ہوگا۔ پاکستان پر معمولی اثرات ضرور ہوں گے مگر افغانستان کے تاجر، صنعتکار اور عوام شدید نقصان اٹھائیں گے۔”

شاہد حسین نے مزید کہا کہ “اگر افغانستان چاہتا ہے کہ وہ پاکستان سے تجارت ختم کر کے دیگر ممالک کے ذریعے کرے تو اسے لاگت، وقت اور نقل و حمل کے مسائل کا سامنا ہوگا۔ ایران کے چاہبہار بندرگاہ تک راستہ طویل ہے اور اس کی لاجسٹک لاگت پاکستان کے راستے کے مقابلے میں دوگنی ہے۔”

ابرار حسین، سابق سفیر برائے افغانستان کا مؤقف

سابق سفیر ابرار حسین نے ایچ ٹی این سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان کی طرف سے پاکستان کے ساتھ تجارتی تعلقات ختم کرنا ایک غیر عملی فیصلہ ہے۔ “افغان حکومت چاہ بہار اور سنگ لاجورد کے ذریعے تجارت کی کوشش کرے گی، مگر یہ راستے انتہائی مہنگے اور غیر پائیدار ہیں۔ ان راستوں کے ذریعے تجارت صرف کاغذ پر ممکن ہے، زمینی حقائق اس کی اجازت نہیں دیتے۔”

ابرار حسین نے کہا کہ “افغانستان کے پاس پاکستان کے سوا کوئی عملی تجارتی راستہ نہیں ہے۔ پاکستان کی بندرگاہیں، سڑکیں اور ریلوے نیٹ ورک افغانستان کی معاشی سانس ہیں۔

سلمان جاوید: “پاکستان پر معمولی اثر، افغانستان پر کاری ضرب”

افغان امور کے ماہر سلمان جاوید کا مؤقف تھا کہ پاکستان کی معیشت افغانستان پر صرف 5 فیصد تک منحصر ہے، جبکہ افغانستان کی 60 فیصد تجارت پاکستان کے ساتھ ہے۔ “یہ کہنا کہ پاکستان افغانستان کے بائیکاٹ سے گر جائے گا، ایک احمقانہ خیال ہے۔ پاکستان کو معمولی نقصان ضرور ہوگا مگر افغانستان کی تجارت مکمل طور پر تباہ ہو جائے گی۔”

انہوں نے کہا کہ “پاکستان نے 1998 میں ایٹمی دھماکوں کے بعد عالمی پابندیوں کا سامنا کیا مگر اپنی معیشت کو سنبھالے رکھا،  اس کے علاوہ کئی عالمی پابندیوں اور مشکل حالات کے باوجود بھی پاکستان کی معیشت زیادہ متاثر نہیں ہوئی تو کیا افغانستان جیسا محدود وسائل والا ملک پاکستان کی معیشت تباہ کرے گا؟ پاکستان  سے قطع تعلق کے بعد کیا افغانستان خود کو سنبھال سکے گا؟ یہ ناممکن ہے۔”

تجارتی بندش کے اثرات اور قیمتوں میں اضافہ

اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق اس تجارتی بندش کے بعد  افغانستان میں اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ آٹے کی 50 کلو بوری 100 افغانی تک مہنگی ہو چکی ہے جبکہ چاول کی قیمت میں 50 افغانی فی بوری اضافہ ہوا ہے۔ دوسری جانب پاکستان میں بھی پھلوں اور سبزیوں کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں کیونکہ افغانستان سے درآمد رک گئی ہے۔

افغان معیشت پر دباؤ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ پہلے ہی غیر ملکی سرمایہ کاری 60 فیصد کم ہو چکی ہے، افراط زر 12 فیصد تک جا پہنچا ہے، اور کرنسی مارکیٹ غیر مستحکم ہے۔ اس کے ساتھ تجارتی راستوں کی بندش نے افغانستان کو مزید مشکلات میں دھکیل دیا ہے۔

ازبکستان کے ساتھ نیا تجارتی معاہدہ -امید یا دھوکہ؟

گزشتہ دن افغانستان اور ازبکستان نے ایک تاریخی معاہدے پر دستخط کیے ہیں جس کے تحت دونوں ممالک کے درمیان زمینی اور ہوائی کوریڈور قائم کیا جائے گا۔ اسے پاکستان کا متبادل قرار دیا جا رہا ہے۔ تاہم تجارتی ماہرین اس معاہدے کو علامتی قرار دے رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق افغانستان کی جانب سے ازبک زبان میں موجود سائن بورڈز ہٹانے کے حالیہ اقدام نے دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کے ماحول کو بھی متاثر کیا ہے۔

اقتصادی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ازبکستان کے راستے افغانستان کی یورپی منڈیوں تک رسائی اگرچہ ممکن ہے مگر لاگت کئی گنا زیادہ ہوگی۔ نہ صرف وقت بلکہ فریٹ چارجز میں بھی 60 فیصد اضافہ متوقع ہے۔

دیگر راستوں  سے تجارت  افغانستان کیلئے کیوں ممکن نہیں؟

نقشہ جاتی رُخ اور لاگت کا حقیقت پسندانہ تجزیہ یہ واضح کرتا ہے کہ چاہ بہار، واخان یا وسطی ایشیائی راستے عملی طور پر افغانستان کے لیے فوری، سستا اور قابلِ عمل متبادل نہیں بن سکتے۔ چاہ بہار بندرگاہ سے افغانستان تک مال پہنچانے کے لیے سامان کو ایران کے اندر طویل زمینی فاصلے طے کرنا پڑتے ہیں، پھر سرحدی بارڈر کراسنگز، مختلف کنسائنمنٹ ٹرانسفارمز، اور وسطی ایشیائی ممالک میں ریلوے و روڈ نیٹ ورک کے درمیان ٹرانس شپمنٹ کی کثرت شامل ہوتی ہے جس کی وجہ سے بار بار کنٹینر کھولنے، دوبارہ لوڈنگ اور اضافی کسٹمز پیمائشیں درکار ہوتی ہیں۔

نقشے پر سیدھا دیکھیں تو کراچی سے کابل کا راستہ سمندری اور زمینی ملاپ کے ذریعے تقریباً نصف وقت لیتا ہے جو چاہ بہار/ایران-ازبک-افغان روٹ کے مقابلے میں کئی دن کم ہے؛ لاجسٹک ماہرین کے مطابق پاکستان راستہ ٹرانزٹ لاگت میں تقریباً 40 فیصد سستا ہے جبکہ ایران یا وسطی ایشیا کے راستے اختیار کرنے پر فریٹ، بیمہ، ڈیمریج اور ٹرانس شپنگ فیسوں میں مجموعی طور پر تقریباً 60 تا 100 فیصد تک اضافہ متوقع ہے۔ مزید برآں، وسطی ایشیائی کوریڈورز میں ریلوے گیج اختلاف، کنٹینر سٹینڈرڈ کے تقابلی مسائل، اور سرحدی انفراسٹرکچر کی کمزوریوں کے سبب وقتِ ترسیل چند دنوں سے ہفتوں تک بڑھ جاتا ہے ۔ نتیجہ یہ کہ خراب ہونے والی تازہ پیداوار، بشمول خشک میوہ اور کھانے پینے کی اشیاء، اپنی تجارتی قیمت کھو دیتی ہیں اور تاجروں کے نقصان میں تیزی آ جاتی ہے۔ لہٰذا صاف ظاہر ہوتا ہے کہ چاہ بہار، واخان یا لاپس لازولی جیسے کورئڈرز کاغذی حل ضرور ہیں مگر زمینی حقائق، انفراسٹرکچر اور لاجسٹک لاگت کے باعث افغانستان کے لیے وقتی اور بڑے پیمانے پر پاکستان کا متبادل بننا فی الحال عملی طور پر ناممکن اور انتہائی مہنگا ثابت ہوگا۔

کیا کابل بھارت نوازی میں پاکستانی احسانات فراموش کر رہا ہے؟

اس سیاسی پس منظر میں ایک اور تلخ حقیقت یہ ہے کہ بھارت کی خاموش مداخلت اور سفارتی پشت پناہی کابل کے بعض فیصلوں کی پشت پر دکھائی دیتی ہے ۔کئی مبصرین اور افغان بزنس حلقے عمومی طور پر کہتے ہیں کہ نئی پالیسیوں میں بھارت کا اثر واضح ہے۔ اگرچہ ہر ملک اپنی خارجہ پالیسی بناتا ہے، مگر یہ تصور کہ افغانستان چند سکے کے عوض پاکستان کے ساتھ طویل المدتی تعلقات اور پچھلے چالیس سالہ قربانیوں کو فراموش کر دے، سوال اٹھاتا ہے۔

پاکستانی نقطۂ نظر کے مطابق وہی افغان زمین جس نے پناہ گزینوں، تجارتی راستوں اور انسانی امداد کے ذریعے پاکستان کے ساتھ قریبی ربط رکھا، آج بعض حلقوں کی سرپرستی یا بیرونی دباؤ کے سبب پاکستان کی منطقی امنگوں کو نظر انداز کر رہی ہے۔ اسی پسِ منظر میں پاکستان کی سب سے واضح اور برقرار مانگی ہوئی مانگ یہ ہے کہ افغان سرزمین کسی بھی دہشتگرد گروہ، خصوصاً ٹی ٹی پی، کے لیے محفوظ ٹھکانہ نہ بنے؛ اسلام آباد واضح ثبوت اور رپورٹس کی بنیاد پر یہ تقاضا کر رہا ہے کہ کابل ایسے عناصر کو پناہ نہ دے، انہیں پکڑ کر قانون کے حوالے کرے اور مشترکہ نگرانی و تصدیق میکانزم پر اتفاق کرے۔ جب تک ان سکیورٹی تحفظات کا قابلِ رِسمی، شواہد پر مبنی حل نہیں نکلتا، دونوں فریقوں کے درمیان تجارتی و سفارتی کشیدگیاں برقرار رہنے کا امکان ہی غالب ہے اور اس کا بھاری خمیازہ سب سے زیادہ افغان معیشت کو اٹھانا پڑے گا۔

افغانستان کیلئے سب سے خطرناک فیصلہ؟

افغان حکومت کا پاکستان سے تجارتی تعلقات ختم کرنے کا اعلان وقتی سیاسی فائدے کے لیے کیا گیا قدم معلوم ہوتا ہے، مگر اس کے طویل المدتی اثرات تباہ کن ثابت ہوں گے۔ افغانستان کے بیشتر تاجروں اور ماہرین کا اتفاق ہے کہ یہ فیصلہ دراصل افغان معیشت کو زمین بوس کرنے کے مترادف ہے۔

پاکستان کے ساتھ تجارت افغانستان کے لیے صرف ایک اقتصادی ضرورت نہیں بلکہ جغرافیائی ناگزیر حقیقت ہے۔ چاہ بہار، لاپس لازولی، واخان  کوریڈور جیسے متبادل راستے کاغذ پر موجود ہیں مگر عملی طور پر وہ غیر پائیدار، مہنگے اور غیر محفوظ ہیں۔

اگر افغانستان نے اپنی تجارتی پالیسی کو زمینی حقائق سے ہم آہنگ نہ کیا تو آنے والے مہینوں میں اشیاء کی قلت، مہنگائی، بیروزگاری، اور اقتصادی تباہی کی نئی لہر ملک کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ ماہرین کے مطابق افغانستان کے لیے پاکستان کے ساتھ تجارتی تعلقات کو برقرار رکھنا اس کی معیشت کی بقا کے لیے ناگزیر ہے  ورنہ نقصان ناقابلِ تلافی ہوگا۔

دیکھیں: پاک افغان تجارت محدود – کیا افغانستان اپنے تاجروں کا معاشی قتل عام کر رہا ہے؟

متعلقہ مضامین

قومی اسمبلی نے مسلح افواج سے متعلق اہم ترامیم کی منظوری دے دی ہے، جس کے بعد آرمی چیف کو چیف آف ڈیفنس فورسز کا اضافی عہدہ بھی مل جائے گا

November 14, 2025

ایوانِ صدر میں ہونے والی تقریب میں وفاقی آئینی عدالت کے پہلے چیف جسٹس امین الدین خان سے آج صدر مملکت آصف علی زرداری حلف لیں گے

November 14, 2025

افغان طالبان کی وزارتِ عدل نے 36 لاکھ 86 ہزار مربع میٹر سے زائد زمین کو سرکاری ملکیت قرار دیا ہے جسکے بعد غزنی کے کے ہزاروں رہائشی شدید مسائل کا شکار ہیں

November 14, 2025

جامعہ صدیقیہ کراچی کے مہتمم مولانا منظور مینگل تعزیت کے لیے کراچی سے قلات روانہ ہوئے، دورانِ سفر بی ایل اے کے مسلح افراد نے راستہ بند کردیا

November 14, 2025

رائے دیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *