خان سعید آفریدی بین الاقوامی کراٹے چیمپئن ہے، اس کو بینکاک میں ہونے والے انٹرنیشنل کراٹے چیمپئن شپ میں شرکت کرنی ہے، یہ کوئی عام مقابلہ نہیں بلکہ پاکستان اور انڈیا کا مقابلہ ہے اور عالمی سطح پر پاکستان کے نام کو روشن کرنے کا نایاب موقع ہے۔ مگر حکومت نے اس نوجوان کے لیے نہ ٹکٹ دیا، نہ تربیت کی سپورٹ، نہ ہی مالی مدد۔
مگر افسوس آج وہی چیمپئن سرپرستی اور مدد کا منتظر ہے۔ حکومتِ پاکستان، جسے ایسے ہیروز پر فخر ہونا چاہیے، آج خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔
خیبر پختونخوا کے گورنر فیصل کریم کنڈی نے بلاول بھٹو کی موجودگی میں خان سعید سے ملاقات کی، وزیراعلیٰ سہیل آفریدی نے بھی وعدے کیے، مگر دونوں رہنماؤں نے مدد کے بجائے خاموشی اختیار کی۔ وہ وعدے جو کیے گئے تھے، آج ہوا میں تحلیل ہوگئے۔ نتیجہ یہ کہ خان سعید آج پشاور میں بیٹھا حکومت سے امداد کی اُمید لگائے ہوئے ہے۔
خیبر کی سرزمین ہمیشہ سے غیرت، ہنر اور بہادری کی علامت رہی ہے۔ اسی دھرتی نے پاکستان کو ایسے سپوت دیے جنہوں نے دنیا بھر میں ملک کا نام روشن کیا۔ انہی میں سے ایک نام ہے خان سعید آفریدی کراٹے کا انٹرنیشنل چیمپئن جس کے فولادی پنجوں نے کئی بین الاقوامی مقابلوں میں دشمن کے غرور کو خاک میں ملا دیا۔ لیکن افسوس حکومتِ پاکستان نے آج تک اس شیر کو وہ مقام نہیں دیا جس کا وہ حقدار ہے۔
خان سعید اس وقت بینکاک میں ہونے والے انٹرنیشنل موئے تھائی چیمپئن شپ کے لیے تیار ہے، جس کی گونج دو سو سے زائد ملکوں تک پہنچے گی۔ مگر یہ قومی ہیرو سرکاری سپانسرشپ سے محروم ہے۔ وہ پچھلے کئی دنوں سے پشاور میں بیٹھا حکومت کی توجہ کا منتظر ہے۔
اس عالمی مقابلے میں شرکت کے لیے خان سعید کو کم از کم ساٹھ لاکھ روپے درکار ہیں ۔اس میں بنکاک تک کا سفر، وہاں رہائش، خوراک، اور چند دنوں کی پیشہ ورانہ ٹریننگ شامل ہے تاکہ وہ جسمانی طور پر مکمل فٹ ہوکر رنگ میں داخل ہو اور پاکستان کے لیے فتح حاصل کرے۔ مگر یہ تمام بوجھ وہ اکیلا کیسے اُٹھائے؟
دلچسپ بات یہ ہے کہ 29 نومبر 2025 کو خان سعيد کا مدمقابل انڈیا کا کھلاڑی اسی چیمپئن شپ کے لیے حکومتی خرچ پر بینکاک میں ٹریننگ کر رہا ہے۔ بھارتی حکومت نے نہ صرف اس کے سفری اخراجات برداشت کیے بلکہ اُس کے کوچ، خوراک اور رہائش کے لیے خصوصی فنڈ بھی جاری کیا۔ اور ادھر پاکستان کا ہیرو پشاور کی گلیوں میں مدد کا منتظر ہے۔ کیا یہ انصاف ہے؟
پنجاب کے نیزہ باز کھلاڑی ارشد ندیم نے بھی غربت میں اولمپکس تک رسائی حاصل کی۔ اُس وقت اُس کے پاس ٹریننگ کے لیے کچھ بهی نہیں تھا مگر جب وہ گولڈ میڈل جیتا تو حکومتِ پنجاب نے اُسے موٹر گاڑی اور نقد رقم دی اور وفاقی حکومت نے بھی مالی انعامات کا اعلان کیا۔ سوال یہ ہے کہ جیت سے پہلے حکومت کہاں تھی؟
پھر اگر خان سعید جیت کر آئے تو یہی سیاست دان، یہی وزراء فوٹو سیشن کے لیے جائیں گے، جیسے اُنہیں پہلے سے سپورٹ حاصل رہی ہو۔ ایسے رویے قوموں کو نہیں بلکہ ہیروز کو مایوس کرتے ہیں۔
خیبر کی دھرتی ہمیشہ غیرت مند رہی ہے۔ یہی وہ سرزمین ہے جس نے عجب خان آفریدی جیسے سپوت پیدا کیے، جن کی غیرت آج بھی کہانیوں میں زندہ ہے۔ آج کا خان سعید آفریدی بھی اسی غیرت کا وارث ہے، جو ملک کا نام روشن کرنے نکل رہا ہے مگر اپنے ہی حکمران اُس کے ساتھ نہیں۔
میں نے اس حوالے سے وزیراعظم شہباز شریف کے مشیر اور ایم پی اے اختیار ولی سے رابطہ کیا تو اُنہوں نے بتایا کہ پچھلے سال مرحوم سینیٹر عباس آفریدی کی ريفرنس پر خان سعید اُن کے پاس آیا تھا۔ اختیار ولی نے کہا کہ اُس وقت بھی میں نے سپانسر کے لیے کوشش کی تھی اور اب بھی کر رہا ہوں تاکہ کوئی ادارہ اس نوجوان کو سپانسر کرے۔
اختیار ولی کی یہ کوشش قابلِ تعریف ہے مگر حکومت کو اب محض بیانات سے آگے بڑھنا ہوگا کيونکہ خان سعید کا خواب ایک شخص کا نہیں پوری قوم کی عزت کا سوال ہے۔
اگر گورنر فیصل کریم کنڈی اور وزیراعلیٰ سہیل آفریدی جاگ جائیں تو یہ اُن کے لیے عزت کا موقع ہے۔ خاص طور پر سہیل آفریدی جس کا تعلق بھی اسی قبیلے سے ہے اُسے اپنے قبیلے کے فخر کو سپورٹ کرنا چاہیے۔ حکومت اگر آج خان سعید کے ساتھ کھڑی ہو تو کل وہی نوجوان پاکستان کا پرچم بلند کرے گا۔
مگر افسوس آج کے سیاست دان جلسوں اور نعروں میں گم ہیں۔ ایک اپنے رہنما کی رہائی کے جنون میں پورے صوبے کے مسائل بھلا دیے ہیں۔ بلاشبہ اپنے رہنما کی آزادی کے لیے کوشش کرنا اُس کا حق ہے، مگر عوام، صوبہ اور نوجوان ہیرو بھی تو اس کے اپنے ہیں۔ دوسرا تقاريب کی زينت بننے میں مصروف ہے جیسے عوامی خدمت صرف فوٹو سیشن تک محدود ہو۔
جب سیاست دان اپنے نعروں میں مصروف ہیں تو اب ضرورت ہے کہ نبيل خان آفریدی، کبیر آفریدی، طاہر خان جیسے سماجی کارکن اور کاروباری لوگ آگے بڑھیں۔ وہی خان سعید کی مدد کریں تاکہ دنیا کو دکھایا جا سکے کہ پشتون قوم اپنے ہیروز کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے چاہے حکمران کچھ بھی کریں۔
اگر آج یہ نوجوان بینکاک جا کر دو سو ملکوں کے درمیان پاکستان کا پرچم لہرا دے تو یہی سب خاموش حکمران کل شرمندہ ہوں گے کیونکہ وہی خان سعید دنیا کو یہ بتائے گا کہ عزت پیسوں سے نہیں، جذبے اور غیرت سے ملتی ہے۔
قوموں کو سیاست دان سے زياده اُن کے ہیرو عزت دلواتے ہیں۔ اگر آج ہم نے اپنے ہیرو کو تنہا چھوڑ دیا تو کل کسی کو حق نہیں کہ اس کی جیت کے ساتھ تصویر کھنچوائے کیونکہ تاریخ یاد رکھتی ہے کس نے وعدہ کیا اور کس نے عمل۔
خان سعید جیسے ہیروز زندہ قوموں کا سرمایہ ہوتے ہیں مردہ ضمیر حکومتوں کا نہیں۔ وقت ہے کہ ہم فوٹو سیشن نہیں فخرِ وطن کی سرپرستی کریں۔
کیونکہ کل جب وہ رنگ میں اُترے گا تو اُس کے مکے صرف مخالف پر نہیں، بلکہ اُس نظام پر لگیں گے جس نے اپنے ہی سپاہی کو اکیلا چھوڑا۔
آج حکومت کو چاہیے کہ وہ اس نوجوان کو اپنی سفارتی پہچان بنائے۔ کیونکہ اصل سفیر وہ نہیں جو باہر ملکوں میں تقریریں کرے بلکہ وہ ہے جو اپنی محنت سے اپنے ملک کا پرچم دنیا کے اسٹیڈیموں میں لہرا دے۔