افغان طالبان کے ترجمان ملا ذبیح اللہ نے دعویٰ کیا ہے کہ ترکی میں حملے سے منسلک داعش کمانڈر محمد گورین کی گرفتاری ان کی انٹیلی جنس کارروائی کا نتیجہ ہے، تاہم حقائْ ان کے مؤقف کی تائید نہیں کرتے۔ اطلاعات کے مطابق گورین جو کابل میں مقیم تھا، افغانستان سے بلوچستان کے راستے پاکستان داخل ہونے کی کوشش کر رہا تھا۔ پاکستانی خفیہ اداروں نے اس کی نقل و حرکت کا پتہ لگایا اور کارروائی کی اور وہ زخمی ہو کر افغانستان میں فرار ہو گیا۔
مصدقہ ذرائع کے مطابق اسے بعد ازاں ایک مقامی جنگجو سردار نے مالی مفادات کے عوض ترک خفیہ اداروں کے حوالے کیا۔ اس پورے عمل میں طالبان کی براہِ راست انٹیلی جنس کارروائی کے کوئی شواہد دستیاب نہیں ہیں۔
ترک انٹیلی جنس کی کامیابی
رپورٹ کے مطابق محمد گورین کی گرفتاری میں افغان طالبان کا نہ تو کوئی عملی کردار تھا اور نہ ہی ان کی جانب سے کسی قسم کا انٹیلی جنس تعاون سامنے آیا۔ سیکیورٹی ذرائع کے مطابق یہ کارروائی مکمل طور پر ترک خفیہ ادارے کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں اور انٹیلی جنس نیٹ ورک کا نتیجہ تھی جبکہ طالبان سے منسوب کسی دعوے کی تائید زمینی حقائق یا شواہد سے نہیں ہوتی۔
واقعاتی ترتیب اور زمینی حقائق سے واضح ہوتا ہے کہ محمد گورین کی گرفتاری مختلف انٹیلی جنس معلومات، مقامی شناخت اور بین الاقوامی رابطوں کا نتیجہ تھی نہ کہ طالبان کی کسی خفیہ کامیابی کا۔ اس تناظر میں ملا ذبیح اللہ مجاہد کا یہ دعویٰ کہ مذکورہ کارروائی طالبان کی انٹیلی جنس نے انجام دی، زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا۔
دیکھیں: شمالی وزیرستان حملے کا دوسرا خودکش بمبار بھی افغان شہری ”عزام” نکلا