نائن الیون کے بعد دنیا کا نقشہ ہی نہیں بدلا بلکہ خیبر پختونخوا کے مظلوم عوام کی زندگی بھی آگ و خون کی نذر ہوگئی۔ افغانستان اور امریکہ کی جنگ جب سرحدوں سے نکل کر قبائلی علاقوں اور خیبر پختونخوا تک پہنچی تو اس دھرتی کے باسیوں نے امن کے نام پر سینکڑوں نہیں، ہزاروں قربانیاں دیں۔
یہ وہ دور تھا جب حق بولنا جرم تھا، اور سچ لکھنے والوں کو گولیوں اور بموں سے خاموش کیا جارہا تھا۔ تب سے اب تک خیبر پختونخوا کے ساٹھ سے زائد صحافی اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے شہید کر دیے گئے۔
ان شہداء کے نام تاریخ کے روشن باب ہیں — مکرم خان عاطف، نصراللہ آفریدی، اللہ نور، ابو الحسن، حیات اللہ، خلیل جبران، محبوب آفریدی، موسیٰ خانخیل، اور درجنوں دیگر نامور صحافی وہ چراغ ہیں جنہوں نے اندھیروں میں سچائی کی شمع جلائے رکھی۔ مگر افسوس، آج ان کے اہلِ خانہ انصاف اور مدد کے منتظر ہیں۔
ایسے وقت میں جب شہداء کے ورثاء مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں، خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ سهیل آفریدی نے “ماڈرن جرنلزم یونیورسٹی” کے قیام کا اعلان کیا — مگر اس کا نام صوبه پنجاب کے صحافی ارشد شریف کے نام پر رکھنے کا فیصلہ کیا۔ یہ اعلان صحافتی حلقوں اور عوام کے درمیان شدید بحث کا باعث بنا، کیونکہ خیبر پختونخوا کے شہید صحافی ہی اس خطے کے اصل وارث ہیں۔
میں نے جب اس فیصلے پر خیبر پختونخوا کے سینئر صحافی اور فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر شمیم شاہد سے بات کی تو انہوں نے کہا:
“یہ اعلان بے وقت ہے۔ وزیر اعلیٰ کو پہلے صوبے کے امن و ترقی پر توجہ دینی چاہیے۔ ان کے سامنے وفاق اور صوبے کے تعلقات سمیت کئی مسائل ہیں، جن پر فوکس ضروری ہے۔ جرنلزم یونیورسٹی کا قیام اچھا قدم ہے، مگر ارشد شریف کے نام پر نہیں۔ ارشد شریف ہمارے اچھے دوست تھے، لیکن ہمارے صوبے کے صحافیوں نے وطن کے امن کے لیے قربانیاں دیں۔ ساٹھ سے زیادہ صحافی شہید ہوئے، مگر آج تک ان کے خاندان انصاف کے منتظر ہیں۔ حکومت نے ان کے ساتھ کوئی مالی مدد تک نہیں کی۔ ارشد شریف بیرونِ ملک قتل ہوئے اور ان کے خاندان کو معاوضہ بھی ملا۔ اگر یونیورسٹی کا نام رکھنا ہے تو اسے ہمارے شہداء — خلیل جبران، نصراللہ آفریدی، محبوب آفریدی، حیات اللہ، اللہ نور، مکرم خان عاطف، موسیٰ خانخیل، ابو الحسن وغیرہ يا کسی اور شهيد کے نام پر ہونا چاہیے۔”
اسی سلسلے میں میں نے معروف صحافی اور کالم نگار شمس مومند سے رائے لی۔ انہوں نے کہا:
“پہلے بھی سابق وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور نے پشاور یونیورسٹی کے جرنلزم ڈیپارٹمنٹ کا نام ارشد شریف کے نام پر رکھنے کی کوشش کی تھی، مگر ہم نے خیبر پختونخوا کے شہید صحافیوں کے حق تلفی کے خلاف شدید مزاحمت کی۔ اب سهیل آفریدی کا فیصلہ بھی اسی توہین کا تسلسل ہے۔ یہ خیبر پختونخوا کے صحافیوں اور پشتون عوام کے ووٹ کے مینڈیٹ کی توہین ہے۔ انہوں نے اپنے صوبے کے شہید صحافیوں کو فراموش کر کے دوسرے صوبے کے ایسے شخص کا نام چنا جو صرف ان کی پارٹی کے لیے اہم تھا،ہمارے صوبے کے لیے کوئی کام نہیں کيا۔ اگر یونیورسٹی بنانی ہے تو اسے پشتون شہداء، دانشوروں اور اہلِ قلم کے نام سے موسوم کیا جائے، تب ہی عوام اسے سراہیں گے۔”
تیسری رائے میں نے وائس آف امریکہ کے سینئر صحافی اور کالم نگار سراج ظہیر سے لی۔ ان کا کہنا تھا:
“یونیورسٹی کا قیام خوش آئند ہے، مگر افسوس کہ خیبر پختونخوا شہید صحافیوں سے بھرا پڑا ہے۔ پچھلی دہائیوں میں بے شمار پشتون صحافی شہید ہوئے، اور میرے خیال میں آخری شہید خلیل جبران تھے۔ یہ سلسلہ رکا نہیں بلکہ آج بھی صحافیوں کو دھمکیاں مل رہی ہیں۔ لہٰذا یہ یونیورسٹی کسی شہید صحافی کے نام پر ہونی چاہیے۔ سهیل آفریدی اگر آج اعلیٰ عہدے پر ہیں تو یہ انہی پشتون صحافیوں کی مرہونِ منت ہے جنہوں نے انہیں ہر جگہ کوریج دی اور دنیا کے سامنے متعارف کرایا۔ اگر پشتون صحافی نہ ہوتے تو شاید وہ آج گمنامی کی زندگی گزار رہے ہوتے۔ خیبر پختونخوا کی سرزمین نے رحیم اللہ یوسفزئی جیسے عظیم صحافی پیدا کیے، یونیورسٹی انہی يا دوسرے کسی شهيد کے نام پر ہونی چاہیے۔ شمیم شاہد نے بطور تنظیمی سربراہ اس فیصلے کی مخالفت کی ہے، اور ہم تمام صحافی ان کے مؤقف کی بھرپور حمایت کرتے ہیں۔”
ان تمام تبصروں سے واضح ہوتا ہے کہ خیبر پختونخوا کے شہید صحافیوں کی قربانیاں کسی رسمی تقریب یا اعلان سے زیادہ معنی رکھتی ہیں۔ یہ ان کے خون سے لکھی ہوئی تاریخ ہے۔ ارشد شریف کا احترام اپنی جگہ، مگر ان کا قتل بیرون ملک ہوا اور ان کے اہلِ خانہ کو وہاں کی حکومت نے مکمل معاوضہ دیا۔ اس کے برعکس خیبر پختونخوا کے شہداء کے خاندان آج بھی انصاف، روزگار اور تعلیم کے لیے دربدر ہیں۔
اگر ارشد شریف کے نام پر کوئی ادارہ قائم کرنا ہی ہے تو بہتر ہوگا کہ یہ ان کے آبائی علاقے میں ہو، تاکہ ان کا نام زندہ رہے۔ مگر “ماڈرن جرنلزم یونیورسٹی” کا نام ان شہید صحافیوں میں سے کسی کے نام پر ہونا چاہیے جنہوں نے اس دھرتی کے امن اور قلم کی حرمت کے لیے اپنی جان قربان کی۔
ریاست کو چاہیے کہ شہداء کے خاندانوں کے لیے صرف وقتی امداد نہیں بلکہ ماہانہ وظیفہ اور تعلیمی اسکالرشپ مقرر کرے تاکہ ان کے بچے تعلیم حاصل کر کے اپنے والدین کے مشن کو آگے بڑھا سکیں۔ یہی ریاست کا شفیق اور ذمہ دار چہرہ دکھانے کا بہترین موقع ہے۔
خیبر پختونخوا کے شہید صحافی اس مٹی کے اصل سپوت ہیں — ان کے نام زندہ رہیں گے، اگر ہم انہیں اپنی جامعات، نصاب اور دلوں میں جگہ دیں۔
دیکھیں: ڈی آئی خان میں ایف سی اہلکاروں پر حملہ؛ 4 جوان شہید، 08 دہشت گرد ہلاک