ایرانی صدر مسعود پزشکیان پاکستان پہنچ گئے ہیں، یہ انکا ایران اسرائیل کی 12 روزہ جنگ کے بعد کسی بھی ملک کا پہلا دورہ ہے۔ چونکہ پاکستان نے جنگ کے دوران ایران کی کھل کر سفارتی سطح پر حمایت کی اور پارلیمان سے اسرائیل کی ایران پر حملے کے خلاف مذمتی قرارداد بھی منظور کی، جس کا شکریہ ایرانی صدر نے ایرانی پارلیمنٹ میں پرزور انداز میں ادا کیا، اسی وجہ سے یہ دورہ بہت اہمیت کا حامل ہے جس میں بنیادی طور پر دونوں ممالک کے درمیان تجارتی روابط بڑھانے پر بات ہوگی جس کے بارے میں ایرانی صدر نے تہران میں پاکستان روانگی سے قبل کہا کہ کوشش ہے کہ دونوں ممالک کی تجارت کا حجم دس ارب ڈالر تک پہنچے۔ اس کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک کے درمیان گیس پائپ لائن منصوبے کے حوالے سے بھی بات ہوگی اور اسے جلد مکمل کرنے کی حکمت عملی پر غور ہوگا۔
ایرانی صدر اپنے دو روزہ دورے کے دوران صدر پاکستان، وزیراعظم اور دیگر سیاسی اور حکومتی شخصیات سے ملاقات کریں گے جس میں اہم ترین معاملہ ایران امریکہ تعلقات اور کشیدگی میں پاکستان کا مثبت کردار ادا کرنے کے حوالے سے بھی بات ہوگی۔ چونکہ نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار نے گذشتہ ہفتے امریکہ کے دورے کے دوران ایران امریکہ تنازعات میں مثبت کردار ادا کرنے کی پیشکش کی جسے امریکہ نے بھی قبول کیا، تو بین الاقوامی پابندیوں اور ایران امریکہ تعلقات کے پیش نظر بھی ایرانی صدر کا یہ دورہ بہت اہمیت کا حامل لگ رہا ہے۔
پاکستان اور ایران دریا کے وہ کنارے ہیں جو نہ کبھی جدا ہو سکتے ہیں نہ باہم مل سکتے ہیں، وقت اور حالات کے پیش نظر قربت اور دوریاں پیدا ہوتی رہی ہیں مگر اتنا طے ہے کہ دونوں ممالک نے مشکل وقت میں ہمیشہ ایک دوسرے کا ساتھ دیا۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات بہت گہرے اور دیر پا ہیں جو تاریخی طور پر بہت اہمیت کے حامل ہیں۔
چونکہ پاکستان کی ایران کے ساتھ قریباً 909 کلو میٹر لمبی سرحد ہے اسی وجہ سے دونوں ممالک کی مذہبی،سماجی، اخلاقی اور لسانی اقدار و روایات بھی مشترک ہیں۔ آزادئ پاکستان کے بعد ایران نے سب سے پہلے پاکستان کو تسلیم کیا اور تب سے پاک ایران تعلقات کا آغاز ہوا جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید مظبوط و مستحکم ہوتا گیا۔
ایران کو چونکہ ایٹمی پروگرام اور خطے میں دہشت گرد تنظیموں کی مبینہ مدد کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر کئی طرح کی پابندیوں کا سامنا ہے اسی وجہ سے پاک ایران معاہدے بھی تعطل کا شکار رہے ہیں، پاکستان ایران پر یکطرفہ لگنے والی پابندیوں کی حمایت نہیں کرتا اور ان پابندیوں کو خطے کے لئے مزید بد امنی کا باعث سمجھتا رہا ہے، اسی لئے پاکستان نے ان مسائل کو مذاکرات اور باہمی مشاورت سے حل کرنے پر زور دیا ہے، اور حالیہ دورے میں بھی اس حوالے سے مثبت پیش رفت دیکھنے کو مل سکتی ہے۔
پاک ایران دوستانہ تعلقات خطے کے امن کے بہت ضروری ہیں کیونکہ دونوں اسلامی ممالک کی بقاء کے لئے ایک دوسرے کا ساتھ دینا اور بین الاقوامی سطح پر بھی حمایت کرنا خاصا اہم ہے۔ یہی چیز دونوں ممالک کے تعلقات کو مزید بہتر اور مستحکم کر رہی ہے۔ چونکہ جغرافیائی طور پر دیکھا جائے تو ایران کو کسی بھی قسم کا نقصان پہنچتا ہے تو اس کے منفی اثرات پاکستان پر بھی ہو سکتے ہیں۔ لہذا دونوں ممالک کو اپنی بقاء کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کی ضرورت ہے مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ ایران پر جاری بین الاقوامی پابندیاں ختم ہوں تاکہ وہ کھل کر دوسرے ممالک سے تجارت اور معاہدے کر سکے اور امید ہے کہ ایران پر لگی پابندیوں کے حوالے سے پاکستان ایک مثبت ،تعمیری اور تاریخی کردار ادا کر سکتا ہے۔
دیکھیں: اسحاق ڈار کی ایرانی ہم منصب عباس عراقچی سے اسلام آباد میں ملاقات