جب اگست 2021 میں طالبان دوبارہ افغانستان میں برسرِاقتدار آئے تو پاکستان کو یقین تھا کہ مذہبی اور مکتبی قربت اس کے لیے ایک ایسا سفارتی اثاثہ ثابت ہوگی جو کسی اور ملک کے پاس نہیں۔ دیوبندی مکتبِ فکر کی مشترکہ بنیاد، مدارس کے گہرے روابط، اور پاکستانی علما و طالبان قیادت کے درمیان عشروں پرانی آشنائی کو اسلام آباد ایک ایسا قدرتی پل سمجھتا تھا جو کابل میں اثر و رسوخ کی راہ ہموار کرے گا۔ مگر چار سال بعد منظرنامہ مکمل طور پر بدل چکا ہے۔ پاکستان کی مذہبی سفارت کاری نہ تو تحریکِ طالبان پاکستان کے مسئلے پر طالبان کا موقف بدل سکی اور نہ ہی سرحدی سیکیورٹی کے حوالے سے کوئی عملی نتیجہ دے سکی۔
علما کا احترام موجود، اثرات غائب
دو ہزار اکیس سے اب تک پاکستان نے ایک درجن سے زیادہ مذہبی وفود افغانستان بھیجے۔ ان میں مفتی تقی عثمانی، مولانا محمد طیب، مولانا عبدالغفور حیدری، اور مولانا فضل الرحمان جیسے نام شامل تھے۔ طالبان نے ان وفود کی عزت تو کی، مگر ان کی باتیں عملی طور پر تسلیم نہ کیں۔ نہ TTP کے خلاف کارروائی میں کوئی تبدیلی آئی اور نہ ہی بارڈر مینجمنٹ کے حساس معاملات پر۔ کابل نے مسلسل یہ مؤقف دہرایا: “TTP پاکستان کا داخلی مسئلہ ہے، افغانستان مداخلت نہیں کرے گا۔”
طالبان کی ابھرتی ہوئی “نئی قومی فکر”
ماہرین کہتے ہیں کہ طالبان میں فکری تبدیلی اس سفارتی ناکامی کی بنیادی وجہ ہے۔ طالبان اب محض دیوبندی مکتب کے حامل گروہ نہیں رہے، بلکہ ایک سخت گیر “افغان اسلامی قومی شناخت” تشکیل دے چکے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو افغان اسلام کے واحد حقیقی محافظ سمجھتے ہیں، جبکہ پاکستانی علما کو ایک بیرونی ریاست کے نمائندے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اس کے برعکس، TTP کو وہ “فکری رشتہ دار” تصور کرتے ہیں، جنہیں وہ زیادہ خالص اور غیر سمجھوتہ پسند جنگجو سمجھتے ہیں۔ یہی قومی احساسِ برتری اور استقلال پاکستان کی مذہبی سفارت کاری کے دائرہ اثر کو محدود کرتا ہے۔
چونکہ طالبان کی نئی خودمختار سوچ مذہبی اپیل کے مقابلے میں قومی مفاد کو ترجیح دیتی ہے، اس لیے مذہبی دلیل اور اخلاقی اپیل وہ وزن نہیں رکھتیں جس کی پاکستان نے امید باندھی تھی۔
خطے کے دیگر ممالک کا مؤثر اور عملی انداز
اس دوران خطے کے متعدد ممالک طالبان کے ساتھ کہیں زیادہ عملی اور مؤثر مکالمے کر رہے ہیں۔ سعودی عرب مذہبی رشتوں کو اقتصادی امداد اور تربیتی پروگراموں سے جوڑ رہا ہے۔ امارات نے حقانی نیٹ ورک اور طالبان کے دیگر دھڑوں کے ساتھ براہِ راست تعلق اور سرمایہ کاری بڑھا دی ہے۔ قطر اب بھی مذاکراتی ورثے کے ذریعے اپنا اثر قائم رکھے ہوئے ہے۔ ایران نے مغربی افغانستان کے مدارس اور ثقافتی اداروں میں مضبوط جگہ بنا لی ہے۔
اس کے مقابلے میں پاکستان کی حکمت عملی زیادہ تر اخلاقی اپیلوں، موسمی ملاقاتوں، اور جذباتی توقعات تک محدود رہی، جس کا عملی فائدہ بہت کم نکلا۔
مذہبی سفارت کاری کے حدود و قیود
مذہبی سفارت کاری مکمل طور پر بے فائدہ نہیں۔ یہ رابطے قائم رکھتی ہے، کشیدگی کم کرتی ہے، اور مکالمے کا راستہ کھلا رکھتی ہے۔ مگر جب اسے سیاسی، اقتصادی اور سیکیورٹی میکانزم کا مضبوط سہارا نہ ہو تو یہ اثر انگیز نہیں رہتی۔ صرف نصیحت اور مذہبی دلیل کسی یقین دہانی یا عملی تعاون میں تبدیل نہیں ہو سکتی۔
آگے کا راستہ
تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان کو چاہیے کہ مذہبی سفارت کاری کو عملی اقدامات سے جوڑے۔ ایک مشترکہ پاکستان–افغانستان علما کونسل تشکیل دی جائے، دونوں ممالک کے درمیان تعلیمی وظائف، مشترکہ فتوی پروگرام، اور مدارس کی اصلاحات کے منصوبے شروع کیے جائیں۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ TTP کے مسلح بغاوت کو شرعی اور اخلاقی اعتبار سے غیر جائز ثابت کرنے کے لیے واضح علمی و قانونی بیانیہ پیش کرے، تاکہ طالبان کو بھی اس پر نظرثانی کا موقع ملے۔
اس کے ساتھ ساتھ، کندهار کے مرکز سے براہِ راست رابطہ بھی ضروری ہے، کیونکہ طالبان انتظامیہ کے بنیادی فیصلے اب وہیں کیے جاتے ہیں۔
پاکستان کو تسلیم کرنا ہوگا کہ طالبان اب وہ ’’شاگرد‘‘ نہیں جو ماضی میں سمجھے جاتے تھے۔ وہ ایک خودمختار، طاقتور اور قومی بیانیہ رکھنے والی قوت ہیں۔ مذہبی ڈپلومیسی صرف احترام پیدا کر سکتی ہے، اثر و رسوخ نہیں۔ اثر تب پیدا ہوگا جب مذہبی رشتے سیاسی، معاشی اور اسٹریٹجک اقدامات کے ساتھ جڑے ہوں۔ اگر پاکستان اپنا کردار برقرار رکھنا چاہتا ہے تو اسے مذہبی رشتوں کو عملی فائدے، واضح حکمت عملی اور حقیقی سفارتی بصیرت کے ساتھ آگے بڑھانا ہوگا۔