پاکستان نے طالبان کے مہاجرین سے متعلق دعوے مسترد کر دیے، سرحد پار دہشت گردی روکنے کے لیے ٹی ٹی پی اور بی ایل اے کے جنگجوؤں کی حوالگی کا مطالبہ

November 10, 2025

طالبان کا مؤقف: ٹی ٹی پی پاکستان کا مسئلہ ہے، مگر اقوامِ متحدہ اور انٹیلی جنس رپورٹس افغان سرزمین پر موجود شدت پسندوں کی پناہ گاہوں کی نشاندہی کرتی ہیں

November 10, 2025

پاکستان کا افغان طالبان سے قابلِ تصدیق سکیورٹی ضمانت کا مطالبہ، مذاکرات ٹی ٹی پی کارروائی پر رک گئے

November 10, 2025

پاکستان واضح کر چکا ہے کہ وہ اپنی سرزمین اور عوام کی حفاظت کے لیے ہر ممکن اقدام کرے گا، دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف کارروائی جاری رکھے گا۔

November 9, 2025

اس سلسلے میں ہری پور میں گوگل کی پروڈکشن پلانٹ کا افتتاح کیا گیا، جو نیشنل ریڈیو اینڈ ٹیلی کمیونیکیشن کارپوریشن اور پرائیویٹ سیکٹر کے اشتراک سے کام کر رہا ہے۔

November 9, 2025

اس سے قبل صبح پہلے سیمی فائنل میں پاکستان نے آسٹریلیا کو سنسنی خیز مقابلے کے بعد 1 رن سے ہرا دیا تھا۔

November 9, 2025

استنبول مذاکرات تعطل کا شکار، پاکستان کا ٹی ٹی پی کے خلاف مضبوط اقدامات کا مطالبہ

پاکستان کا افغان طالبان سے قابلِ تصدیق سکیورٹی ضمانت کا مطالبہ، مذاکرات ٹی ٹی پی کارروائی پر رک گئے

1 min read

پاکستان کا افغان طالبان سے قابلِ تصدیق سکیورٹی ضمانت کا مطالبہ، مذاکرات ٹی ٹی پی کارروائی پر رک گئے

طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد میڈیا کو افغان طالبان حکومت کی پالیسیوں سے آگاہ کرتے ہوئے۔

November 10, 2025

پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان استنبول میں ہونے والے مذاکرات ایک بار پھر بغیر کسی نتیجے کے اختتام پذیر ہو گئے، جس سے خطے میں استحکام کی امیدیں مزید کم ہو گئی ہیں۔ ترکی اور قطر کی ثالثی میں ہونے والے مذاکرات تب تعطل کا شکار ہونے لگے جب کابل نے اس بات کی تصدیقی ضمانت دینے سے صاف انکار کر دیا کہ افغان سرزمین کو پاکستان پر حملے کرنے والے مسلح گروہوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ کے طور پر استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا۔

پاکستانی وفد نے اپنا موقف واضح کرتے ہوئے کہا کہ محض زبانی یقین دہانیاں اب ناکافی ہیں، بالخصوص اس وقت جب تحریک طالبان پاکستان سرحد پار اپنے محفوظ ٹھکانوں سے اپنی کارروائیوں میں اضافہ کرچکی ہے۔ پاکستان نے دروںِ مذاکرات اس بات پر زور دیا کہ دہشت گردی کے خلاف وعدوں کو تحریری شکل دی جائے اور ان پر مشترکہ طور پر عمل درآمد کی نگرانی کی جائے۔

اسلام آباد کی جانب سے اہم مطالبات میں افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی کے نیٹ ورکس کا خاتمہ، دہشت گرد گروہوں کے کمانڈروں کو پاکستان کے حوالے کرنا اور ایک تحریری حفاظتی میکانزم تشکیل دینا شامل ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ افغانستان کی زمین کو سرحد پار حملوں کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ حکام کا اصرار ہے کہ یہ مطالبہ بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے عین مطابق ہے اور افغانستان کی خودمختاری پر حاوی نہیں ہے۔

تاہم افغان نمائندوں نے ایک بار پھر کسی بھی ایسے پابند نگرانی کے فریم ورک پر اتفاق کرنے سے انکار کر دیا۔ یہ تعطل اس وقت پیدا ہوا جب تصدیق کے طریقہ کار اور جوابدہی کے ڈھانچے کو باقاعدہ طور پر طے کیا جانا تھا۔

اس کشیدگی میں اس وقت اور اضافہ ہوا جب طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے پاکستان کے مؤقف کو غیر معقول قرار دے دیا۔ پاکستانی حکام اور تجزیہ کاروں نے اس بیان کو گمراہ کن قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ٹی ٹی پی کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں کی ذمہ داری سے توجہ ہٹانے کی ایک پرانی پروپیگنڈا حکمت عملی کی عکاسی کرتا ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق افغانستان میں اگست 2021 میں طالبان کے اقتدار پر آنے کے بعد سے پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ سال 2021 میں پاکستان میں 207 دہشت گردانہ حملے ریکارڈ کیے گئے، جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 42 فیصد اضافہ تھا، جن میں سے تقریباً پچاس فیصد سے زیادہ حملوں کی ذمہ داری ٹی ٹی پی نے قبول کی۔ اگلے برسوں میں یہ رجحان اور تیز ہوا یہاں تک کہ 2023 میں پاکستان میں 306 حملے ہوئے، جن میں 80 فیصد سے زائد اموات کا ذمہ دار ٹی ٹی پی اور اس کے اتحادی گروہوں کو ٹھہرایا گیا۔ خودکش حملوں کی تعداد اور شدت میں بھی اضافہ ہوا اور سال 2023 میں ایسے 23 واقعات ریکارڈ کیے گئے۔

اقوام متحدہ کی مانیٹرنگ ٹیم کی 35ویں اور 36ویں رپورٹس میں بھی افغانستان میں القاعدہ کی تنظیم نو کا حوالہ دیا گیا ہے اور ان میں کہا گیا ہے کہ طالبان کی جنرل ڈائریکٹوریٹ آف انٹیلی جنس نے ٹی ٹی پی کے آپریٹوز کو محفوظ راستے، رہائش اور اسلحہ فراہم کیا ہے۔ جنوری 2025 کی 66ویں رپورٹ میں افغانستان میں 6,000 سے 6,500 کے درمیان ٹی ٹی پی جنگجوؤں کے کھلے عام کام کرنے کی نشاندہی کی گئی تھی۔ جولائی 2025 کی 68ویں رپورٹ میں مزید انکشاف کیا گیا کہ طالبان کے بعض حلقوں نے داعش۔ خراسان، ٹی ٹی پی اور القاعدہ کے لیے محفوظ ٹھکانے مہیا کیے ہیں۔

اگر افغان حکام کا دعویٰ ہے کہ ان کے ہاں کوئی شدت پسند پناہ گاہیں موجود نہیں ہیں، تو تجزیہ کاروں کے مطابق وہ ترکی یا قطر جیسی غیر جانبدار جماعتوں کو شامل کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کے لیے آزادانہ نگرانی کے طریقہ کار پر رضامند ہو سکتے ہیں۔ پاکستان نے متعدد بار ایسی نگرانی کی اجازت دینے کی آمادگی کا اظہار کیا ہے۔

پاکستان نے طویل عرصے سے مذاکرات کی راہ ہموار کی ہے اور دہائیوں سے لاکھوں افغان پناہ گزینوں کو پناہ دی ہے۔ دیکھا جاٗے تو اسلام آباد کا رویہ بنیادی طور پر سفارتی ہے لیکن اس کی جڑیں قومی سلامتی کی بنیادی ضروریات میں ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہزاروں جانیں گنوانے کے بعد پاکستان سرحد پار سے ہونے والے غیر کنٹرول شدہ تشدد کو مزید برداشت نہیں کر سکتا۔

ایک سینئر پاکستانی سیکورٹی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ مذاکرات جاری رہ سکتے ہیں لیکن صرف اس صورت میں اگر ان کا تعلق قابل عمل اقدامات کے ساتھ ہو۔ انہوں نے کہا، “امن محض الفاظ پر قائم نہیں رہ سکتا۔ وعدوں کو حقیقی، تحریری اور نافذالعمل ہونا چاہیے۔”

متعلقہ مضامین

پاکستان نے طالبان کے مہاجرین سے متعلق دعوے مسترد کر دیے، سرحد پار دہشت گردی روکنے کے لیے ٹی ٹی پی اور بی ایل اے کے جنگجوؤں کی حوالگی کا مطالبہ

November 10, 2025

طالبان کا مؤقف: ٹی ٹی پی پاکستان کا مسئلہ ہے، مگر اقوامِ متحدہ اور انٹیلی جنس رپورٹس افغان سرزمین پر موجود شدت پسندوں کی پناہ گاہوں کی نشاندہی کرتی ہیں

November 10, 2025

پاکستان واضح کر چکا ہے کہ وہ اپنی سرزمین اور عوام کی حفاظت کے لیے ہر ممکن اقدام کرے گا، دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف کارروائی جاری رکھے گا۔

November 9, 2025

اس سلسلے میں ہری پور میں گوگل کی پروڈکشن پلانٹ کا افتتاح کیا گیا، جو نیشنل ریڈیو اینڈ ٹیلی کمیونیکیشن کارپوریشن اور پرائیویٹ سیکٹر کے اشتراک سے کام کر رہا ہے۔

November 9, 2025

رائے دیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *