نوبل امن انعام سویڈن کے صنعت کار، موجد، اور اسلحہ ساز الفریڈ نوبل کی وصیت کے تحت 1901 میں شروع کیا گیا۔ اس کا مقصد اُن شخصیات یا اداروں کو سراہنا تھا جنہوں نے عالمی امن کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کیا۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ یہ انعام کئی مرتبہ تنازعات میں گھر گیا، اور اب اکثر ماہرین اسے ’’سیاسی ایوارڈ‘‘ قرار دیتے ہیں جو مغربی مفادات کے مطابق دیا جاتا ہے۔
ماضی کے متنازعہ ایوارڈ یافتگان
تاریخ میں کئی ایسے افراد کو نوبل امن انعام دیا گیا جن کا ماضی جنگ، تشدد اور انسانی حقوق کی پامالیوں سے جڑا تھا۔
- ہنری کسنجر: کمبوڈیا پر خفیہ بمباری کے ذمہ دار اور ہزاروں انسانوں کی ہلاکت کے باوجود امن کے علمبردار قرار پائے۔
- شمعون پیریز: اسرائیل کے جوہری ہتھیاروں کے خالق اور فلسطینیوں پر مظالم کے باوجود نوبل انعام کے حقدار ٹھہرے۔
- فرٹز ہیبر: پہلی جنگ عظیم میں زہریلی گیس کے استعمال کے موجد کو بھی یہ ایوارڈ دیا گیا۔
- باراک اوباما: افغانستان، عراق، شام اور یمن پر فضائی حملوں کے ماسٹر مائنڈ ہونے کے باوجود امن انعام حاصل کیا۔
یہ مثالیں ظاہر کرتی ہیں کہ نوبل کمیٹی کے فیصلے ہمیشہ امن کے اصولوں پر مبنی نہیں ہوتے بلکہ عالمی طاقتوں کے مفادات کے تابع دکھائی دیتے ہیں۔
نوبل امن انعام 2025 کے امیدوار اور تنازعہ
رواں سال نوبل امن انعام کے ممکنہ امیدواروں میں ڈونلڈ ٹرمپ اور ماہرنگ لانگو بلوچ کے نام نمایاں ہیں۔
- ڈونلڈ ٹرمپ کو بعض حلقے چھ سے زائد جنگوں کے خاتمے کی کوششوں پر قابلِ غور سمجھتے ہیں، مگر غزہ میں اسرائیلی مظالم کی کھلی حمایت نے ان کی نامزدگی کو متنازعہ بنا دیا ہے۔
- ماہرنگ لانگو بلوچ، بلوچستان کے علیحدگی پسند کمانڈر عبدالغفار لانگو کی بیٹی ہیں، جن پر عالمی سطح پر کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن آرمی سے نظریاتی وابستگی کے الزامات لگتے رہے ہیں۔
ماہرنگ بلوچ کی قیادت میں قائم بلوچ یکجہتی کمیٹی پر متعدد بار بیرونی فنڈنگ، ریاست مخالف سرگرمیوں، اور دہشت گرد عناصر کے بیانیے کو تقویت دینے کے الزامات عائد ہوئے ہیں۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے متنازعہ اقدامات
بلوچ یکجہتی کمیٹی نے بلوچستان میں کئی ایسے اقدامات کیے جنہیں سکیورٹی اداروں نے ریاست مخالف قرار دیا:
- جعفر ایکسپریس سانحے میں ہلاک دہشت گردوں کی لاشیں چھیننے کے لیے کوئٹہ اسپتال پر حملے کی کوشش۔
- شیہک بلوچ، شعیب لانگو اور دیگر دہشت گردوں کو ’’جبری گمشدہ افراد‘‘ قرار دے کر احتجاجی مہم چلانا۔
- سی پیک اور دیگر ترقیاتی منصوبوں کے خلاف احتجاجی مہمات کے لیے نارویجن ہیومن رائٹس کمیٹی سے مبینہ فنڈنگ حاصل کرنا۔
یہ تمام اقدامات اس تاثر کو مضبوط کرتے ہیں کہ ماہرنگ بلوچ کا بیانیہ امن سے زیادہ سیاسی مفادات اور بیرونی ایجنڈوں کے تابع ہے۔
امن یا بیانیے کی جنگ؟
نوبل کمیٹی کے فیصلوں میں ایک واضح رجحان نظر آتا ہے—جن شخصیات کے بیانات مغربی انسانی حقوق کے بیانیے سے میل کھاتے ہیں، انہیں عالمی سطح پر سراہا جاتا ہے، چاہے وہ مقامی سطح پر تنازعات میں ملوث کیوں نہ ہوں۔
پاکستانی تجزیہ کاروں کے مطابق، ماہرنگ بلوچ کی نامزدگی دراصل ’’بیانیے کی جنگ‘‘ کا حصہ ہے، جس کا مقصد پاکستان کی انسدادِ دہشت گردی میں قربانیوں کو پسِ پشت ڈال کر ریاستی اداروں کو بدنام کرنا ہے۔
نوبل امن انعام کا مقصد اگر واقعی عالمی امن ہے، تو اس میں غیر جانب داری اور حقائق پر مبنی فیصلے ناگزیر ہیں۔ بصورتِ دیگر، یہ ایوارڈ امن نہیں بلکہ طاقت کی سیاست کا ایک آلہ بن کر رہ جائے گا — جہاں ’’امن‘‘ کی تعریف بھی طاقتور طے کرتے ہیں