حالیہ دنوں میں کندھار، خوست اور پکتیکا میں گل بہادر گروپ کے ٹھکانوں پر کیے گئے پاک فضائیہ اور سیکیورٹی فورسز کے انٹیلی جنس بنیاد آپریشنز کے بعد افغان سوشل میڈیا اور بعض ذرائع نے مبینہ شہری اور کرکٹرز کی ہلاکت کے من گھڑت دعوے پھیلائے۔ وفاقی و عسکری حکام اور آزاد ذرائع کی ابتدائی تفتیش کے مطابق یہ دعوے بےبنیاد ہیں اور کارروائیاں مخصوص دہشت گرد قیادت اور لانچ پیڈز کو نشانہ بنانے کے لیے کی گئی تھیں، نہ کہ عام شہریوں کو۔
سرکاری اور عسکری ذرائع کے مطابق 17 اکتوبر کی ان درست حملوں میں مجموعی طور پر تقریباً 60 تا 75 عسکریت پسند ہلاک ہوئے جبکہ متعدد سینئر کمانڈرز بھی نشانہ بنے۔ ایف سولہ اور ڈرون بیانات میں کہا گیا کہ نشانے بنائے گئے کمپاؤنڈز وہی تھے جہاں (گاڑی بم) کی حتمی اسمبلنگ، تربیت اور اندرونی دراندازی کی تیاری کی جاتی تھی۔ سیکیورٹی حلقوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ 48 گھنٹوں میں اسی نیٹ ورک نے پاکستان میں متعدد حملے اور ایک خودکش گاڑی بم کی کوشش کی، جس میں ایک جوان شہید ہوا۔
حکومتی موقف واضح ہے: یہ آپریشنز ایک پُراُمن ملک کے اندر دہشت گرد قلعوں کو ختم کرنے کے لیے قابلِ عمل انٹیلی جنس کی بنیاد پر کیے گئے دفاعی اقدامات تھے اور اقوامِ متحدہ چارٹر کے آرٹیکل 51 کے تحت خودِ دفاع کے زمرے میں آتے ہیں۔ وفاقی ترجمان نے کہا کہ حملوں کا ہدف قیادت، تربیتی مراکز اور حملہ آور لانچ پیڈز تھے، اور اس میں عام شہریوں کو نشانہ بنانے کی کوئی نیت یا ثبوت نہیں۔
دوسری جانب افغان ذرائع اور بعض میڈیا نے یہ دعویٰ کیا کہ “کرکٹرز” اور عام شہری ہلاک ہوئے۔ پاکستانی سیکیورٹی ماہرین اور فیکٹ چیکرز نے ان دعووں کو مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ دہشت گرد اکثر کھیلوں اور دیگر سرگرمیوں کی تصاویر کا حوالہ دے کر اپنی شناخت چھپاکر شہری شبیہ قائم کرتے ہیں۔ ایک مثال میں مبینہ طور پر “مراسلہ شدہ” فرد کی بعد ازاں سوشل میڈیا پر زندہ پوسٹنگ نے ان دعوؤں کی کمزوری عیاں کر دی۔
حکومت اور عسکری حلقوں کا مظہر ہے کہ طالبان حکومت کی جانب سے ٹی ٹی پی، گل بہادر گروپ اور دیگر خوارج کے خلاف عملی کارروائی نہ کرنے کی خاموشی نے خفیہ ٹھکانؤں کو محفوظ پناہ گاہیں بنا دیا۔ یہی صورتحال پاکستان کو دفاعی کارروائیوں پر مجبور کرتی ہے۔ متعلقہ حکام کا کہنا ہے کہ جب تک افغان سرزمین دہشت گردوں کے لیے استعمال ہوتی رہے گی، پاکستان اپنی سرحد اور عوام کا دفاع یقینی بنانے کے لیے انٹیلی جنس بنیاد آپریشنز جاری رکھے گا۔
اطلاعات کے مطابق ہلاک شدگان میں چند اہم کمانڈرز کے نام بھی سامنے آئے ہیں؛ حکومتی ذرائع کے مطابق ان میں کمانڈر صدیق اللہ داوڑ، کمانڈر فضل الرحمان، کمانڈر مقرب، کمانڈر قدرت اللہ، کمانڈر گلاب عرف دیوانہ، کمانڈر رخمانی، کمانڈر عادل اور کمانڈر عاشق اللہ عرف کوثر شامل ہیں۔ ان ناموں کی حتمی تصدیق تفتیشی عمل مکمل ہونے کے بعد ہی کی جائے گی، جیسا کہ سرکاری بیان میں بھی کہا گیا ہے۔
The Taliban is literally saying this cricket player was killed in the strike on TTP’s Gul Bahadur camp—it’s a miracle that even dead he’s posting propaganda on the same strike. You can’t make this up! https://t.co/lexkqmT0CG
— Sarah Adams (@TPASarah) October 18, 2025
پاکستانی وزارتِ خارجہ نے زور دیا کہ پروپیگنڈا مہم، بُری نیت سے چلائی گئی پرانی تصاویر یا جعلی ویڈیوز کے ذریعے حقیقت کو مسخ نہیں کیا جا سکتا۔ وفاقی ذرائع نے عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ وہ حقائق کی آزادانہ تفتیش کے لیے مربوط شواہد مانگے اور ایک طرفہ پروپیگنڈا پر اعتبار نہ کریں۔
سیکیورٹی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ ایک بڑی معلوماتی جنگ کی بھی مثال ہے جہاں طالبان کی میڈیا و پروپیگنڈا مشین، بعض غیر ملکی ذرائع اور علیحدہ پروکسی نیٹ ورکس مل کر حقائق گھڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تاہم، دفاعی حکام کا مؤقف سخت ہے: جو بھی پاکستان کی سرحد اور عوام پر حملہ کرے گا، اس کا جواب فوری، درست اور طاقتور انداز میں دیا جائے گا۔
پاک فضائیہ اور سیکیورٹی فورسز کے مطابق حالیہ حملے دہشت گردانہ سانچوں اور قیادت کو ختم کرنے کے لیے انٹیلی جنس پر مبنی درست کارروائیاں تھیں۔ افغان ذرائع کے شہری و کرکٹرز کے دعوے کی تحقیقات جاری ہیں، مگر موجودہ سرکاری موقف اور فیکٹ چیک کے شواہد ساحتی طور پر یہ ثابت کرتے ہیں کہ پروپیگنندہ دعوے حقیقت پر مبنی نہیں اور انہیں سکیورٹی آپریشنز کی جواز کو کمزور نہیں کر سکتے۔