جنرل طارق خان نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ ڈیورنڈ لائن کو یہ مانتے نہیں ہیں۔ افغانستان میں پختون کم ہیں اور پاکستان میں زیادہ ہیں۔ تو پھر یہ سرحد اٹھا کر آمو (سنٹرل ایشیا) پر ہی لے جاتے ہیں۔ ریٹائرڈ فوجی شاید سیکیورٹی فورسز کی ایک 3 اور ایک 2 کے تناسب سے دی جانے والی جان کی قربانیوں کو دیکھ کر بولنا شروع ہوئے ہیں۔

December 10, 2025

شامی وزیرِ انصاف نے کہا ہے کہ سابق مفتی اعظم حسون کے حوالے سے تصدیق کی کہ وہ عدالتی تحویل میں ہیں اور تحقیقات جاری ہیں

December 10, 2025

ایبٹ آباد تفتیشی افسر کے مطابق ملزمہ کو زیور واپس کرنے سے روکنا ایک خوفناک واردات کا سبب بنا اور اب اس بات پر بھی تفتیش ہو رہی ہے کہ ملزمہ کا شوہر قتل کی سازش میں شریک تھا یا نہیں۔

December 10, 2025

بولٹن میں افغان شہری بکتاش سلطانی پر دو خواتین سے جنسی زیادتی کا مقدمہ چل رہا ہے، جبکہ اس سے قبل دو افغان پناہ گزین 15 سالہ بچی سے اجتماعی زیادتی کے جرم میں پکڑے گئے تھے

December 10, 2025

نتالی بیکر کے مطابق، یہ شراکت داری پاکستان اور امریکہ کے درمیان اقتصادی اور تجارتی تعلقات کو مضبوط کرے گی، اور بلوچستان جیسے پسماندہ خطے میں انفراسٹرکچر اور روزگار فراہم کر کے معاشی استحکام لانے میں مددگار ثابت ہوگی۔

December 10, 2025

سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق اس قیادت کے خلاء نے ان خدشات کو مزید بڑھا دیا ہے کہ افغانستان جیسے نازک ملک میں انسانی حقوق کی بگڑتی صورتحال اور سیاسی جمود کے باوجود یوناما کس حد تک اپنا کردار ادا کر سکتی ہے۔

December 10, 2025

افغانستان میں پختون برتری کا خاتمہ ہوا تو ذمہ دار کون ہوگا؟

جنرل طارق خان نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ ڈیورنڈ لائن کو یہ مانتے نہیں ہیں۔ افغانستان میں پختون کم ہیں اور پاکستان میں زیادہ ہیں۔ تو پھر یہ سرحد اٹھا کر آمو (سنٹرل ایشیا) پر ہی لے جاتے ہیں۔ ریٹائرڈ فوجی شاید سیکیورٹی فورسز کی ایک 3 اور ایک 2 کے تناسب سے دی جانے والی جان کی قربانیوں کو دیکھ کر بولنا شروع ہوئے ہیں۔
افغانستان میں پختون برتری کا خاتمہ ہوا تو ذمہ دار کون ہوگا؟

مولانا افغانستان سے جنگ کے خطرات بتاتے ہوئے افغانستان کو برطانیہ ، روس اور امریکا جیسی سپر طاقتوں کا قبرستان بتاتے ہوئے اس آپشن سے گریز کا مشورہ دیتے ہیں۔

December 10, 2025

افغانستان کے ساتھ تجارتی راستوں کی بندش پر محمود خان اچکزئی نے تنقید کی ہے۔ انہوں نے ایک بیان میں پوچھا کہ تم افغانستان کے خلاف اتنا جارحانہ انداز کیوں اپنائے ہوئے ہو۔ اس نے کیا کیا ہے؟ 3 دن پہلے تم انڈیا سے لڑ رہے تھے، پھر بھی کہتے ہو کہ ہم اس سے بات چیت کرنے کو تیار ہیں۔ تو افغانستان سے بات چیت کیوں نہیں۔

مشر محمود خان کا کہنا تھا کہ ہمسائے تبدیل نہیں کیے جا سکتے ان کے ساتھ مل جل کر امن سے ہی رہا جا سکتا ہے۔ اس سے پہلے محمود خان نے پاک افغان جھڑپوں کے وقت اس کو پھیلا کر جنگ بننے سے روکنے کا مشورہ دیا تھا۔ استنبول مذاکرات ناکام ہوتے لگے تب بھی انہوں نے افسوس کا اظہار کیا تھا۔

مولانا فضل الرحمان نے بھی افغانستان پر محمود خان اچکزئی سے ملتی جلتی ٹون اپنا رکھی ہے۔ مولانا پاکستان کی خارجہ پالیسی پر تنقید کر رہے ہیں۔ جنگ کے نقصانات اور فوجی انداز میں حل کرنے کی کوشش کی مذمت کرتے پائے جاتے ہیں۔ مولانا نے پاک افغان جھڑپوں کے بعد ثالثی کردار ادا کرنے کی بھی پیشکش کی۔

مولانا افغانستان سے جنگ کے خطرات بتاتے ہوئے افغانستان کو برطانیہ ، روس اور امریکا جیسی سپر طاقتوں کا قبرستان بتاتے ہوئے اس آپشن سے گریز کا مشورہ دیتے ہیں۔

یہ دونوں پاکستان کے اہم پختون راہنما ہیں جن کی سیاست پختون قوم پرستی اور مذہبی فکر کی نمائندہ ہے۔ اسفندیار ولی خان گھر بیٹھ گئے ہیں جو بدقسمتی کی بات ہے اور وہ مستقل خاموش ہیں۔ خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی مقبول ترین جماعت ہے اور صوبائی حکومت اس کے پاس ہے۔ پی ٹی ائی افغان مہاجرین کو نکالنے کے خلاف ہے۔ کپتان دہشتگردوں کے خلاف آپریشن، ڈرون کے استعمال اور افغانستان کے اندر مسلح گروپوں کو نشانہ بنانے کے بھی خلاف ہے۔ پشتون تحفظ موومنٹ پاکستان سے زیادہ افغان طالبان کے ساتھ کھڑی دکھائی دیتی ہے ۔ پی ٹی ایم نظریاتی طور پر افغان طالبان کی مخالف ہو کر بھی اس وقت ان کی حمایت کرتی دکھائی دیتی ہے۔

یہ پاکستان کی پختون بیلٹ کی نمایاں سوچ کے مختلف رنگ ہیں جو سارے ہی افغان مسلے پر ریاستی مؤقف سے دور کھڑے ہیں۔ مولانا اور اچکزئی دونوں بہت سمجھدار سیاسی راہنما ہیں، یہ ہو نہیں سکتا کہ آپ ان سے بات کرنا چاہیں اور وہ سننے سے انکار کریں۔ آپ منطق دیں وہ انہیں سمجھ آئے اور یہ اس سے انکاری ہو جائیں۔ تو لگتا یہی ہے کہ دونوں سے ہی جاری صورتحال پر رابطہ نہیں کیا گیا یا دونوں کو ہی ان کے حال پر چھوڑا گیا ہے۔

محمود خان اچکزئی جب افغان طالبان کو مخاطب کرتے ہیں تو ملا صیب کہہ کر شروع ہوتے ہیں۔ محمود خان کا مشہور ڈائلاگ  ’زہ ملا صاحب تہ ہم وایم، ورورہ خدای تہ وگوری لیونی دَ زان سہ مہ جوڑوی‘۔ اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ ’میں ملا صیب سے بھی کہتا ہوں کہ بھائی خدا کو مانو پاگل پن مت کرو‘۔ یہ آج کل دوبارہ آنا چاہیے تھا لیکن نہیں آیا۔

ڈیفنس منسٹر خواجہ آصف نے افغانستان کے ساتھ تناؤ کے دوران بہت جارحانہ بیانات دیے۔ وہ سفارتی لب و لہجہ اور انداز برقرار رکھے بغیر ہے بے دریغ بولتے رہے۔ ذبیح اللہ مجاہد نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ وہ اب خواجہ آصف کے بیان کا جواب نہیں دیں گے۔ خواجہ صاحب پوری پاکستانی قوم کی نمائندگی نہیں کرتے۔ انہوں نے اگر ٹوئٹ کی ہے تو اس کا سرکاری طور پر جواب دینا ضروری نہیں۔ ہمیں معلوم ہے پاکستانی قوم جنگ کے خلاف ہے۔ اس بیان کو آپ جدھر مرضی فٹ کر لیں۔ خواجہ صاحب کے مداح ہیں تو کہہ لیں کہ انہوں نے لاجواب کر دیا، پختون سیاسی قیادت کی پوزیشن دیکھیں تو لگتا اس کا خیال کیا جا رہا۔ خود افغان طالبان کی ماؤتھ پیس پاکستان میں سول ملٹری سوچ میں فرق کو اپنی میڈیا رپورٹس میں نمایاں کر رہے ہیں۔

پاکستان میں پختون لیڈر شپ ایک خاص مؤقف اپنائے ہوئے ہے۔ لگتا یہ ہے کہ ان کو صورتحال پر بریف نہیں کیا گیا یا وہ کیا کہہ رہے اس سے حوالدار بشیر کو کوئی غرض ہی نہیں۔ فور اسٹار جنرل احسان افغان ایشو پر بولے ہیں۔ تھری اسٹار جنرل انعام الحق اور جنرل طارق خان نے اس پر بات کی ہے۔ میجر عامر بھی اس پر بہت منطقی انداز میں بولے ہیں ۔ پشاور سے کئی پختون یو ٹیوبر مسلسل معتدل رہتے ہوئے بھی پاکستانی مؤقف پر ہی اصرار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

جنرل طارق خان نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ ڈیورنڈ لائن کو یہ مانتے نہیں ہیں۔ افغانستان میں پختون کم ہیں اور پاکستان میں زیادہ ہیں۔ تو پھر یہ سرحد اٹھا کر آمو (سنٹرل ایشیا) پر ہی لے جاتے ہیں۔ ریٹائرڈ فوجی شاید سیکیورٹی فورسز کی ایک 3 اور ایک 2 کے تناسب سے دی جانے والی جان کی قربانیوں کو دیکھ کر بولنا شروع ہوئے ہیں۔

لگتا یہ ہے کہ افغان طالبان صورتحال کی سنگینی کا اندازہ لگانے میں ناکام ہیں ۔ افغان طالبان کی پالیسی افغانستان میں صدیوں سے چلی آ رہی پختون برتری کے خاتمے کا باعث بن سکتی ہے۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے اس کے لیے 3 دہائیوں کی تاریخ سے ہی اشارے مل سکتے۔ افغانستان کا ڈیموگریفک نقشہ دیکھ لیں۔

ایسا ہوا تو بدقسمتی یہ ہو گی کہ پاکستان کی پختون قیادت اس نقصان کا بروقت اندازہ لگانے میں ناکام رہنے کے الزام کا نشانہ بنے گی۔ کوئی ایک بھی ملا صیب پاگل پن مت کرو والی بات تب نہیں کہہ رہا جب اس کی ضرورت ہے۔ دوشنبے میں پاکستانی مندوب افغانستان پر اجلاس کو بتا چکے ہیں کہ دہشتگرد حملوں میں پکڑے اور مارے جانے والوں میں 70 فیصد افغان ہوتے ہیں۔ یہ وہ سیکیورٹی چیلنج ہے جس کو فوجی انداز میں ہی حل کرنے کا شاید سوچ لیا گیا ہے۔ یہ فوجی انداز سے حل ہوا تو اس کے کریڈٹ میں پختون لیڈر شپ شریک نہیں ہو گی۔ پختون کی افغانستان میں برتری کا خاتمہ ہوا تو دہائیوں تک اس کی ذمہ دار قرار پاتی رہے گی۔

نوٹ: یہ آرٹیکل وی نیوز پر شائع ہوا۔ کاپی رائٹ حقوق وسی بابا اور وی نیوز محفوظ رکھتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

شامی وزیرِ انصاف نے کہا ہے کہ سابق مفتی اعظم حسون کے حوالے سے تصدیق کی کہ وہ عدالتی تحویل میں ہیں اور تحقیقات جاری ہیں

December 10, 2025

ایبٹ آباد تفتیشی افسر کے مطابق ملزمہ کو زیور واپس کرنے سے روکنا ایک خوفناک واردات کا سبب بنا اور اب اس بات پر بھی تفتیش ہو رہی ہے کہ ملزمہ کا شوہر قتل کی سازش میں شریک تھا یا نہیں۔

December 10, 2025

بولٹن میں افغان شہری بکتاش سلطانی پر دو خواتین سے جنسی زیادتی کا مقدمہ چل رہا ہے، جبکہ اس سے قبل دو افغان پناہ گزین 15 سالہ بچی سے اجتماعی زیادتی کے جرم میں پکڑے گئے تھے

December 10, 2025

نتالی بیکر کے مطابق، یہ شراکت داری پاکستان اور امریکہ کے درمیان اقتصادی اور تجارتی تعلقات کو مضبوط کرے گی، اور بلوچستان جیسے پسماندہ خطے میں انفراسٹرکچر اور روزگار فراہم کر کے معاشی استحکام لانے میں مددگار ثابت ہوگی۔

December 10, 2025

رائے دیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *