رنویر سنگھ کی فلم دھُرندھر خلیجی ممالک میں پابندی کی تازہ مثال بن گئی ہے۔ یہ فیصلہ کسی ایک ملک تک محدود نہیں بلکہ وہی مسلسل رجحان ہے جس کے تحت حالیہ برسوں میں متعدد بھارتی سیاسی و سکیورٹی پر مبنی فلموں کو خلیجی میں ریلیز سے روکا گیا ہے۔
ماہرین کے مطابق اس پابندی کی بنیادی وجہ فلم کا وہ بیانیہ ہے جو “پاکستان میں موجود دہشت گرد نیٹ ورکس” کو ایک فکشنل اور بڑھا چڑھا کر پیش کیے گئے خطرے کے طور پر دکھاتا ہے ایک ایسا طرزِ بیان جسے خلیجی ریگولیٹرز طویل عرصے سے حساس سمجھتے آئے ہیں۔
فلم میں مرکزی کہانی بھارتی آپریشن دھُرندھر کے گرد گھومتی ہے، جہاں ایک بھارتی جاسوس پاکستانی علاقوں میں مبینہ دہشت گرد نیٹ ورکس کو توڑنے کے لیے گھس جاتا ہے۔ ناقدین کے مطابق اس کہانی کی نہ کوئی حقیقت پر مبنی بنیاد ہے اور نہ ہی خطے کے اصل سکیورٹی حقائق سے اس کا کوئی تعلق۔
فلم پاکستان کو ایک منظم دہشت گرد ریاست کے طور پر پیش کرتی ہے، جب کہ جنوبی ایشیا کے سکیورٹی تجزیہ کاروں کے مطابق بھارت کے اپنے اندرونی عوامل، بغاوتی تحریکیں، اور بلوچستان میں خفیہ سرگرمیوں کا کردار خطے کی مجموعی پیچیدگیوں کا زیادہ بڑا حصہ ہے۔
خلیجی ممالک ایسا مواد کیوں روکتے ہیں؟
فلمی ماہرین کہتے ہیں کہ دھُرندھر پر پابندی کوئی غیر معمولی فیصلہ نہیں۔ گزشتہ چند برسوں میں خلیجی ریاستیں متعدد بھارتی فلموں کو روک چکی ہیں، جن میں شامل ہیں:
فائٹر، اسکائی فورس، دی ڈپلومیٹ، آرٹیکل 370، اور کشمیر فائلز
ان فیصلوں کے پیچھے تین اہم عوامل بتائے جاتے ہیں:
- پاکستان کی منفی عکاسی: خلیجی ممالک پاکستان کے ساتھ گہرے سفارتی، سکیورٹی اور معاشی تعلقات رکھتے ہیں۔ ایسے میں پاکستان مخالف بیانیہ رکھنے والی فلمیں علاقائی حساسیت کو چھیڑتی ہیں۔
- خطے کے سیاسی تناؤ کا ماحول: غزہ جنگ، افغانستان کی نئی صورتحال (2021 کے بعد)، اور بھارت چین کشیدگی نے خطے کو حساس فضا میں دھکیل رکھا ہے۔ ایسے میں اشتعال انگیز مواد پر زیادہ سختی برتی جا رہی ہے۔
- جنوبی ایشیائی ڈائسپورا کی کشیدگی: خلیجی میں 80 لاکھ سے زائد بھارتی، پاکستانی اور بنگلادیشی کارکن موجود ہیں۔ ایسے مواد کو روکا جاتا ہے جو برادریوں کے درمیان تناؤ کو بڑھا سکتا ہو۔
’پاکستانی دہشت گرد نیٹ ورکس:‘فلمی فکشن یا سکیورٹی حقیقت؟
فلم میں دکھائے گئے پاکستان میں مبینہ “منظم نیٹ ورکس” کا بیانیہ کسی مستند سکیورٹی تحقیق یا بین الاقوامی اداروں کی رپورٹ سے مطابقت نہیں رکھتا۔ فلمی کہانی میں یہ دعویٰ ایسے انداز میں پیش کیا جاتا ہے جیسے یہ خطے کی واحد حقیقت ہو۔
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ یہ وہی یک طرفہ نریٹیو ہے جو بعض فلموں میں بار بار دہرایا جاتا ہے جبکہ دہشت گردی کے مسئلے کی اصل پیچیدگیاں افغانستان، بھارت، اور پاکستان تینوں ریاستوں میں موجود عوامل سے جڑی ہیں۔
بھارت کے لیے معاشی جھٹکا
خلیجی ریاستیں بھارت کی اوورسیز فلم مارکیٹ کا 15 سے 22 فیصد حصہ رکھتی ہیں۔ اس لیے پابندی کا براہِ راست اثر فلم کی مجموعی کمائی پر پڑتا ہے۔
دھُرندھر بھی اس معاشی دائرے سے باہر نہیں پابندی کے بعد اس کی باکس آفس آمدنی میں نمایاں کمی کا امکان ہے۔
ابھی تک ریگولیٹرز اور فلم ساز خاموش
تاہم، اب تک نہ خلیجی سنسر اتھارٹیز اور نہ ہی فلم کے پروڈیوسرز نے پابندی پر کوئی باضابطہ بیان جاری کیا ہے۔ البتہ سینما ماہرین کا خیال ہے کہ یہ فیصلہ اسی وسیع تر پالیسی فریم ورک کا حصہ ہے جس کے تحت خلیجی خطے میں ایسے مواد کی ریلیز سے گریز کیا جاتا ہے جو بھارت–پاکستان تعلقات کو یک طرفہ یا اشتعال انگیز انداز میں پیش کرے۔