چھ نومبر – وہ دن جس نے جموں کی سرزمین کو خون سے نہلا دیا، جب ظلم و بربریت نے ہزاروں خاندانوں کو چیر کر رکھ دیا۔ 1947 کی تقسیمِ ہند کے چند ہی ماہ بعد، جموں کے خطے میں ایک ایسا قتلِ عام ہوا جسے جنوبی ایشیا کی تاریخ نے تقریباً بھلا دیا ہے۔ مورخین کے مطابق 20 ہزار سے لے کر 2 لاکھ 37 ہزار تک مسلمان اس قتلِ عام میں شہید ہوئے، جب ڈوگرہ حکمران مہاراجہ ہری سنگھ کی پشت پناہی میں انتہا پسند ہندو اور سکھ جتھوں نے مسلمانوں کو منظم طور پر نشانہ بنایا۔ یہ کوئی اچانک پھوٹنے والا ہجوم نہیں تھا، بلکہ ایک سوچی سمجھی مہم تھی جس کا مقصد جموں کی مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنا تھا۔
تریسٹھ سالہ اسرار احمد خان آج بھی اپنے والد کی سنائی ہوئی داستانوں میں زندہ ہیں — وہ داستانیں جو خوف، خون اور خاموشی سے لبریز ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ “میرے والد اس وقت جوان تھے، ہمارے درجنوں رشتہ داروں کو قتل کر دیا گیا۔ یہ انسانیت کا جنازہ تھا۔” اس دور میں ہزاروں مسلمانوں کو یہ کہہ کر ٹرکوں میں بٹھایا گیا کہ انہیں پاکستان کے سیالکوٹ پہنچایا جا رہا ہے۔ مگر وہ ٹرک کبھی سیالکوٹ نہیں پہنچے۔ ان ٹرکوں کو راجوری کے جنگلات میں لے جایا گیا — جہاں معصوم مرد، عورتیں اور بچے ذبح کر دیے گئے۔
ایمسٹرڈیم کے انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ آف سوشیال ہسٹری کے محقق ادریس کنٹھ کے مطابق، یہ “موت کے ٹرک” ایک منظم نسلی صفایا مہم کا حصہ تھے۔ ڈوگرہ افواج نے نہ صرف مسلمانوں کو ان کے گھروں سے نکالا بلکہ “محفوظ منتقلی” کے بہانے انہیں اجتماعی قتل گاہوں میں پہنچا دیا۔ ان میں سے بیشتر کی لاشیں کبھی نہیں مل سکیں۔
اس قتلِ عام نے جموں کی آبادی کا نقشہ ہی بدل دیا۔ 1947 سے پہلے جموں میں مسلمانوں کی آبادی 60 فیصد سے زیادہ تھی، مگر چند ماہ کے اندر وہ اقلیت میں بدل گئے۔ 1961 کی مردم شماری کے مطابق مسلمانوں کا تناسب صرف 10 فیصد رہ گیا — ایک ایسا زوال جو مورخین کے نزدیک تقسیمِ ہند کا پہلا “منظم نسلی صفایا” تھا۔
اس وقت جموں میں مہاراجہ ہری سنگھ کی حکومت تھی، جو بھارت اور پاکستان کے درمیان تذبذب کا شکار تھا۔ مغربی پنجاب سے ہندو اور سکھ پناہ گزینوں کے جموں آنے کے بعد انتقام کی آگ بھڑک اٹھی۔ ڈوگرہ فوج نے آر ایس ایس اور اکال سینا کے انتہا پسندوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے خلاف قتل و غارت کا سلسلہ شروع کر دیا۔ مورخ پی جی رسول کے مطابق، “یہ قتلِ عام خود رو نہیں بلکہ ریاستی پشت پناہی کے ساتھ منظم طور پر کیا گیا۔”
یہ ظلم اتنا سنگین تھا کہ خود مہاتما گاندھی نے دسمبر 1947 کی ایک تقریر میں کہا کہ “جموں میں انسانیت کی توہین کی گئی ہے۔” مگر جلد ہی یہ باب تاریخ سے مٹا دیا گیا۔ صحافی وید بھاسن، جنہوں نے اس المیے کے بعد کے مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھے، لکھتے ہیں: “نہرو اور شیخ عبداللہ جب جموں آئے تو مسلمانوں نے انصاف کی اپیل کی، مگر ان کی آواز دبادی گئی۔”
آج جموں کے مسلمان خود کو اپنی ہی تاریخ میں اجنبی محسوس کرتے ہیں۔ “ہندوستان میں کوئی اس واقعے پر بات نہیں کرتا،” اسرار خان افسوس سے کہتے ہیں، “ہم اپنی تاریخ کے بھوت بن چکے ہیں۔”
6 نومبر کو پاکستان ہر سال “یومِ شہدائے جموں” مناتا ہے، مگر بھارتی نصاب اور میڈیا میں یہ واقعہ کہیں موجود نہیں۔ محققین کے مطابق، اس خاموشی نے زخموں کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ یہ واقعہ صرف ماضی کا المیہ نہیں بلکہ جنوبی ایشیا کی اجتماعی یادداشت پر ایک بدنما دھبہ ہے — ایک ایسی یاد دہانی کہ جب تک سچ کو تسلیم نہیں کیا جائے گا، مصالحت ممکن نہیں۔
جموں کا قتلِ عام، تقسیمِ ہند کی تاریخ میں وہ سیاہ باب ہے جس نے نہ صرف لاکھوں مسلمانوں کی جانیں لیں بلکہ کشمیر تنازع کی بنیاد بھی رکھ دی۔ آج بھی جب کشمیر میں ریاستی جبر، آئینی حقوق کی منسوخی، اور مسلمانوں کی منظم حاشیہ کشی جاری ہے، تو 1947 کا وہ زخم دوبارہ ہرا ہو جاتا ہے۔ یہ یاد دلانے کے لیے کہ تاریخ اگر دبائی جائے تو وہ خاموش نہیں ہوتی — وہ نسلوں کے دلوں میں دہکتی رہتی ہے۔
دیکھیں: مہمان نوازی سے مایوسی تک – طالبان کا انتہاپسند رویّہ