این آر ایف کا دعویٰ ہے کہ ان کی کارروائیاں صرف دشمن کے ٹھکانوں کے خلاف ہیں اور عام شہریوں کی حفاظت اولین ترجیح ہے، تاہم افغانستان میں جاری مسلسل عدم استحکام اور عسکری سرگرمیوں سے خطے میں سکیورٹی چیلنجز بڑھ رہے ہیں۔

December 10, 2025

پاکستان کی تاریخ میں کچھ شخصیات ایسی ہیں جو کسی ایک جماعت، دور یا ادارے کی نہیں بلکہ پوری قوم کی مشترکہ متاع ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر سلطان بشیر محمود (ستارۂ امتیاز) انہی ناموں میں شامل ہیں۔ وہ محض ایک ایٹمی سائنس دان نہیں بلکہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے ان بنیاد گزاروں میں سے ہیں جن کی دہائیوں پر محیط خاموش، مسلسل اور بے مثال محنت نے پاکستان کو ناقابلِ تسخیر بنایا۔

December 10, 2025

انسانی حقوق اور قومی سکیورٹی کو ایک دوسرے کا دشمن بنانے کی ضرورت نہیں۔ پائیدار سکیورٹی کا دارومدار اس بات پر ہے کہ ریاست اپنے شہریوں کا اعتماد رکھے، اور شہری ریاست پر بھروسہ قائم کریں۔ یہی توازن پاکستان کے لیے عالمی برادری میں اپنی بات منوانے کے لیے ضروری ہے۔

December 10, 2025

ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب کابل پر ان گروہوں کی سرگرمیوں کے حوالے سے بین الاقوامی دباؤ بڑھتا ہے تو وہ معلومات اور حقائق کو مسخ کرکے پیش کرتے ہیں اور الزامات کا رخ پاکستان کی جانب موڑ دیتا ہے۔ لہذا تمام تر شواہد اور حقائق یہی ظاہر کرتے ہیں کہ افغانستان آج دنیا کے سب سے زیادہ غیر ملکی جنگجوؤں کے محفوظ ٹھکانوں کا مرکز بن چکا ہے۔

December 10, 2025

پاکستان نے افغان طالبان کے سابق اہلکار قاری سعید خوستی کے دعوے کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ تمام ادویات بین الاقوامی معیار کے مطابق تیار اور برآمد کی جاتی ہیں

December 10, 2025

بغلان میں طالبان کے فرنگ ضلع کے ڈسٹرکٹ چیف شبیراحمد کو 17 نومبر کو ان کے گھر پر چھاپہ مار کر گرفتار کرلیا گیا۔ شبیراحمد پشتون ہونے کے باوجود مقامی تاجک طالبان سے تعاون رکھتے تھے اور انہیں مقامی زمین اور وسائل قندھار و ہلمند کے کمانڈروں کے حوالے کرنے پر اعتراض تھا۔

December 10, 2025

سلطان بشیر محمود؛ اختلاف سے انکار تک؟

پاکستان کی تاریخ میں کچھ شخصیات ایسی ہیں جو کسی ایک جماعت، دور یا ادارے کی نہیں بلکہ پوری قوم کی مشترکہ متاع ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر سلطان بشیر محمود (ستارۂ امتیاز) انہی ناموں میں شامل ہیں۔ وہ محض ایک ایٹمی سائنس دان نہیں بلکہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے ان بنیاد گزاروں میں سے ہیں جن کی دہائیوں پر محیط خاموش، مسلسل اور بے مثال محنت نے پاکستان کو ناقابلِ تسخیر بنایا۔
سلطان بشیر محمود؛ اختلاف سے انکار تک؟

آج جب ہم پاکستان کی ایٹمی طاقت پر فخر کرتے ہیں تو ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ یہ طاقت کسی فرد، جماعت یا حکومت کی نہیں، بلکہ ان خاموش محسنوں کی امانت ہے جنہوں نے ذاتی شہرت، آسائش اور سلامتی کو قوم پر قربان کر دیا۔

December 10, 2025

حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا پر ایک نہایت افسوسناک اور فکری طور پر تشویشناک رجحان دیکھنے میں آیا۔ تحریکِ انصاف سے وابستگی رکھنے والے بعض کارکنوں نے پاکستان کے ممتاز ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر سلطان بشیر محمود کو محض اس بنیاد پر تنقید کا نشانہ بنایا کہ ان کے صاحبزادے اس وقت ڈی جی آئی ایس پی آر کے منصب پر فائز ہیں۔ اختلافِ رائے جمہوری حق ہے، اس سے انکار نہیں، مگر جب اختلاف ذاتیات میں بدل جائے اور قومی خدمات کو سیاسی وابستگیوں کی عینک سے پرکھا جانے لگے تو یہ رویہ نہ صرف ناانصافی بلکہ اجتماعی شعور کی پستی کی علامت بن جاتا ہے۔

پاکستان کی تاریخ میں کچھ شخصیات ایسی ہیں جو کسی ایک جماعت، دور یا ادارے کی نہیں بلکہ پوری قوم کی مشترکہ متاع ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر سلطان بشیر محمود (ستارۂ امتیاز) انہی ناموں میں شامل ہیں۔ وہ محض ایک ایٹمی سائنس دان نہیں بلکہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے ان بنیاد گزاروں میں سے ہیں جن کی دہائیوں پر محیط خاموش، مسلسل اور بے مثال محنت نے پاکستان کو ناقابلِ تسخیر بنایا۔

1940ء میں امرتسر (برطانوی ہندوستان) میں پیدا ہونے والے ڈاکٹر سلطان بشیر محمود نے قیامِ پاکستان کے بعد اس سرزمین کو اپنا مقدر بنایا۔ اعلیٰ تعلیم کے بعد 1960ء کی دہائی میں پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن سے وابستہ ہوئے اور بہت کم عرصے میں اپنی فنی مہارت اور علمی صلاحیتوں کے باعث صفِ اول کے سائنس دانوں میں شمار ہونے لگے۔ 1974ء میں بھارت کے ایٹمی دھماکے کے بعد جب پاکستان نے دفاعی بقا کی جنگ کا آغاز کیا تو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی قیادت میں جو ٹیم ترتیب دی گئی، اس میں ڈاکٹر سلطان بشیر محمود کلیدی حیثیت رکھتے تھے۔ ڈیرہ غازی خان کے قریب یورینیم افزودگی کے منصوبے کی ابتدائی ذمہ داری انہی کے سپرد کی گئی، اور ان کی شبانہ روز محنت نے پاکستان کو وہ سنگِ میل عبور کرایا جو اس وقت دنیا کے بڑے بڑے ممالک کے لیے بھی آسان نہ تھا۔

1998ء میں چاغی کے پہاڑوں میں ہونے والے ایٹمی دھماکے محض سائنسی کامیابی نہیں تھے بلکہ یہ اس قومی عزم کا اعلان تھے جو برسوں کی قربانیوں اور خاموش محنت کا نتیجہ تھا۔ اس پس منظر میں ڈاکٹر سلطان بشیر محمود جیسے سائنس دانوں کی خدمات کو نظر انداز کرنا تاریخی ناانصافی کے مترادف ہے۔

ڈاکٹر سلطان بشیر محمود کی شخصیت کا ایک اہم پہلو ان کا فکری اور دینی رجحان ہے۔ انہوں نے سائنس اور قرآن کے باہمی تعلق کو اپنی فکری زندگی کا محور بنایا۔ ان کا ماننا تھا کہ اسلام اور سائنس میں تصادم نہیں بلکہ قرآن کائنات کے ان حقائق کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ اس حوالے سے ان کی متعدد کتب، خصوصاً معجزۂ قرآن اور جدید سائنس، علمی حلقوں میں وسیع بحث کا باعث بنی۔ 1988ء میں ڈاکٹر پرویز ہودبھائی کے ساتھ ہونے والا ان کا مکالمہ بھی اسی فکری تناظر میں یاد کیا جاتا ہے، جس نے معاشرے میں ایک سنجیدہ علمی بحث کو جنم دیا۔

یہ بات تسلیم کی جانی چاہیے کہ ڈاکٹر سلطان بشیر محمود کی بعض آراء اور نظریات سے اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ اختلاف رائے زندہ معاشروں کی علامت ہوتا ہے اور کوئی بھی شخصیت تنقید سے بالا تر نہیں۔ مگر چند نظریاتی اختلافات کی بنیاد پر کسی شخص کی پوری زندگی کی قومی خدمات کو مشکوک بنا دینا نہ علمی دیانت ہے اور نہ ہی اخلاقی بلوغت۔ اختلاف کو اس مقام تک لے جانا کہ کسی کے بیٹے کے منصب یا کردار کی بنیاد پر باپ کے وقار پر کیچڑ اچھالا جائے، نہ کبھی مہذب معاشروں میں قابلِ قبول رہا ہے اور نہ ہوگا۔

نائن الیون کے بعد کے عالمی حالات میں ڈاکٹر سلطان بشیر محمود کو بھی شدید آزمائشوں سے گزرنا پڑا۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں، امریکی دباؤ کے تحت، ان پر طالبان اور القاعدہ سے روابط جیسے الزامات عائد کیے گئے، مگر نہ کبھی کوئی ٹھوس ثبوت سامنے آیا اور نہ ہی عدالت یا آزاد تحقیق میں یہ الزامات ثابت ہو سکے۔ بالآخر وقت نے خود فیصلہ سنا دیا اور وہ الزامات تاریخ کے اوراق میں دفن ہو گئے۔

آج جب ہم پاکستان کی ایٹمی طاقت پر فخر کرتے ہیں تو ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ یہ طاقت کسی فرد، جماعت یا حکومت کی نہیں، بلکہ ان خاموش محسنوں کی امانت ہے جنہوں نے ذاتی شہرت، آسائش اور سلامتی کو قوم پر قربان کر دیا۔ ڈاکٹر سلطان بشیر محمود انہی سپاہیوں میں سے ایک ہیں۔

ان سے اختلاف ہو سکتا ہے، مگر انکار نہیں۔ ان پر تنقید ہو سکتی ہے، مگر تضحیک نہیں۔ یہی وہ فکری توازن ہے جو زندہ قوموں کو زندہ رکھتا ہے۔ ڈاکٹر سلطان بشیر محمود ہمارے قومی ہیرو ہیں، ہمارا فخر ہیں، اور آنے والی نسلوں کے لیے علم، کردار اور خدمت کی روشن مثال ہیں۔

متعلقہ مضامین

این آر ایف کا دعویٰ ہے کہ ان کی کارروائیاں صرف دشمن کے ٹھکانوں کے خلاف ہیں اور عام شہریوں کی حفاظت اولین ترجیح ہے، تاہم افغانستان میں جاری مسلسل عدم استحکام اور عسکری سرگرمیوں سے خطے میں سکیورٹی چیلنجز بڑھ رہے ہیں۔

December 10, 2025

انسانی حقوق اور قومی سکیورٹی کو ایک دوسرے کا دشمن بنانے کی ضرورت نہیں۔ پائیدار سکیورٹی کا دارومدار اس بات پر ہے کہ ریاست اپنے شہریوں کا اعتماد رکھے، اور شہری ریاست پر بھروسہ قائم کریں۔ یہی توازن پاکستان کے لیے عالمی برادری میں اپنی بات منوانے کے لیے ضروری ہے۔

December 10, 2025

ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب کابل پر ان گروہوں کی سرگرمیوں کے حوالے سے بین الاقوامی دباؤ بڑھتا ہے تو وہ معلومات اور حقائق کو مسخ کرکے پیش کرتے ہیں اور الزامات کا رخ پاکستان کی جانب موڑ دیتا ہے۔ لہذا تمام تر شواہد اور حقائق یہی ظاہر کرتے ہیں کہ افغانستان آج دنیا کے سب سے زیادہ غیر ملکی جنگجوؤں کے محفوظ ٹھکانوں کا مرکز بن چکا ہے۔

December 10, 2025

پاکستان نے افغان طالبان کے سابق اہلکار قاری سعید خوستی کے دعوے کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ تمام ادویات بین الاقوامی معیار کے مطابق تیار اور برآمد کی جاتی ہیں

December 10, 2025

رائے دیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *