کابل میں امارتِ اسلامیہ افغانستان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ پاک افغان سرحد پر حالیہ جھڑپوں میں پاکستانی فورسز کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق 58 پاکستانی فوجی مارے گئے جبکہ متعدد زخمی ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ اس کارروائی میں طالبان کے 20 جنگجو بھی جاں بحق اور کئی زخمی ہوئے۔ ترجمان نے مزید کہا کہ طالبان جنگجوؤں نے 25 سے زائد پاکستانی چوکیاں تباہ کیں اور مختلف اسلحہ قبضے میں لیا۔
دوسری جانب ایک اعلیٰ پاکستانی عہدیدار نے طالبان کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ سراسر بے بنیاد اور مبالغہ آرائی پر مبنی دعوے ہیں۔ عہدیدار کے مطابق پاکستان جلد “اصل صورتحال کی وضاحت کے ساتھ حقائق پیش کرے گا۔”
ذبیح اللہ مجاہد نے پاکستان پر الزام لگایا کہ وہ داعش خراسان کے ارکان کو پناہ دے رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان اپنی فضائی حدود اور سرحدی سلامتی کے دفاع کا مکمل حق رکھتا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ “افغان سرزمین پر کسی بھی حملے کا جواب ضرور دیا جائے گا۔”
ترجمان نے الزام عائد کیا کہ داعش کے کچھ اہم رہنما پاکستان کے خیبرپختونخوا میں سرگرم ہیں اور ان کے تربیتی مراکز کراچی اور اسلام آباد کے راستے نئی بھرتیوں سے بھرے جا رہے ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ایران اور روس میں حالیہ دہشت گرد حملوں کے تانے بانے انہی مراکز سے جڑے ہیں اور افغانستان کے اندر کئی حملوں کی منصوبہ بندی بھی وہاں سے ہوئی۔
پاکستانی عہدیدار نے ان الزامات کو رد کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جدوجہد کا ریکارڈ واضح ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ “پاکستان نے دہشت گردی کے تمام مظاہر کا مقابلہ کیا ہے، جبکہ طالبان خود دہشت گرد گروہوں کو پناہ دیتے رہے ہیں۔”
ذبیح اللہ مجاہد نے افغان وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی کے دورہ بھارت پر بھی گفتگو کی۔ انہوں نے کہا کہ یہ دورہ دو طرفہ تعلقات کے فروغ کے لیے تھا اور کسی ملک کے خلاف نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ “اس ملاقات کو کسی ملک کے لیے تشویش کا باعث نہیں سمجھا جانا چاہیے۔”
دیکھیں: متقی کا دورہ بھارت: خطے میں ابھرتا افغان ۔ بھارت گٹھ جوڑ اور پاکستان مخالف بیانیہ