افغان طالبان کے ترجمان ملا ذبیح اللہ مجاہد نے پاکستان پر بلا اشتعال فائرنگ اور شہری ہلاکتوں کے الزامات عائد کرکے ایک بار پھر زمینی حقائق کو نظر انداز کیا ہے۔ اسپن بولدک سرحد پر ہونے والی جھڑپوں کے بعد ذبیح اللہ مجاہد کا بیان افغان حکومت کی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش ہے۔
پاکستان کی جوابی کاروائی
اسپن بولدک میں ہونے والی حالیہ کاروائی طالبان کی جانب سے مسلسل سرحد پار دہشت گردانہ کاروائیوں کے بعد کی گئی ہے۔
ذرائع کے مطابق پاک فوج نے صرف اُن ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جو براہِ راست پاکستانی چوکیوں پر حملے میں ملوث تھے۔
ان کارروائیوں میں مارٹرز اور ٹینکوں کے ذریعے صرف دہشت گردوں کے ٹھکانے تباہ کیے گئے، کسی شہری ابادی کو نشانہ نہیں بنایا گیا۔
طالبان بیانیہ حقائق کو نطر انداز کرگیا
طالبان حکومت کی جانب سے سوشل میڈیا پر پھیلائی جانے والی ویڈیوز اور بیانات میں پاکستانی ہتھیاروں پر قبضے کے دعوے کیے گئے، جنہیں سیکیورٹی اداروں نے واضح انداز میں مسترد کر دیا ہے۔
ذرائع کے مطابق یہ بیانات پروپیگنڈا کے سوا کچھ نہیں ہیں جن کا مقصد افغان شہریوں کی حکومت کی ناکامیوں سے توجہ ہٹانا ہے۔
افغان سرزمین دہشت گردوں کی آماجگاہ
اسلام آباد نے گزشتہ ایک سال کے دوران کابل حکومت کو دہشت گرد گروہوں کے متعدد تربیتی مراکز کا ریکارڈ فراہم کیا مگر افغان حکومت نے نہ صرف کارروائی سے گریز کیا بلکہ ان دہشت گردوں کی سرگرمیوں پر بھی کسی قسم کی پابندی نہیں لگائی۔ نتیجتاً یہی سستی یا دوہری پالیسی امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن چکی ہے۔
دورہری پالیسی
ایک جانب تو طالبان حکام سفارتی سطح پر برادرانہ تعلقات اور باہمی احترام کی بات کرتے ہیں لیکن دوسری جانب انہی کے زیرِ اثر گروہ پاکستان میں دہشت گردانہ کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ذبیح اللہ مجاہد کا حالیہ بیانیہ بھی اسی تضاد کی واضح مثال ہے۔
پاکستان کا دوٹوک موقف
پاکستان نے طویل عرصے تک صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا اور بارہا کابل حکومت کو خبردار کیا کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہو۔ تاہم مسلسل خلاف ورزیوں کے بعد پاکستان کے لیے اپنے دفاع میں کارروائی کرنا ناگزیر ہوچکا ہے۔ سیکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر افغان جانب سے اشتعال انگیزی جاری رہی تو ردِعمل اس سے کہیں زیادہ سخت ہوگا۔
حقائق اور پروپیگنڈا مہم
ذبیح اللہ مجاہد کے بیانات دراصل افغان عوام کے دباؤ کا نتیجہ ہیں۔ افغانستان اس وقت شدید معاشی بحران، اندرونی اختلافات اور مختلف مسلح گروہوں کا شکار ہے۔ ایسے وقت میں پاکستان پر الزامات لگانا دراصل طالبان حکومت کے لیے عوامی توجہ ہٹانے کا منصوبہ ہے۔
ماہرین کے مطابق خطے میں امن و استحکام کے لیے ضروری ہے کہ افغان حکومت زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے اور ادراک کرتے ہوئے دہشت گرد گروہوں کے خلاف عملی و مؤثر کارروائی کرے اور سرحد پار اشتعال انگیزیوں کا خاتمہ یقینی بنائے۔ یاد رہے کہ پاکستان نے ہمیشہ سفارتی تعلقات اور باہمی تعاون کو ترجیح دی ہے مگر جب افغان حکام اپنی سرزمین دہشت گردوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ ثابت ہوگی تو کبھی بھی امن و امان ققائم نہیں ہوسکے گا۔
دیکھیں: اسپن بولدک میں پاک فوج کی زبردست جوابی کارروائی، افغان طالبان جنگ بندی کے لیے مجبور