افغانستان میں طالبان کے اقتدار کے بعد یہ تاثر بارہا دیا جاتا رہا کہ یہ ایک ہمہ گیر، اسلامی اور قومی حکومت ہے جس میں تمام نسلی اور لسانی اکائیوں کو برابر کی نمائندگی حاصل ہے۔ مگر زمینی حقائق، انتظامی فیصلے اور حالیہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی رپورٹ اس دعوے کی نفی کرتے ہیں۔ تازہ رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ طالبان نے اپنی سکیورٹی فورسز میں 20فیصد کمی کے نام پر ہزاروں تاجک اور ازبک جنگجوؤں کو فارغ کر دیا ہے، خاص طور پر ان صوبوں میں جہاں آبادی کی اکثریت غیر پشتون ہے۔ یہ اقدام محض مالی یا تنظیمی ضرورت نہیں بلکہ ایک گہری نسلی حکمت عملی کا حصہ دکھائی دیتا ہے۔اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق طالبان قیادت نے بجٹ بحران کا جواز پیش کرتے ہوئے فورسز میں کٹوتی کا حکم جاری کیا۔
تاہم اس فیصلے کے بعد جن علاقوں میں سب سے زیادہ برطرفیاں ہوئیں، وہ بدخشاں، تخار، پروان اور کاپیسا جیسے صوبے تھے جہاں طالبان کی صفوں میں تاجک اور ازبک جنگجو نمایاں تعداد میں موجود تھے۔ اگر یہ فیصلہ واقعی غیر جانبدارانہ اور مالی مجبوری کا نتیجہ ہوتا تو اس کا اثر تمام صوبوں اور تمام نسلی گروہوں پر یکساں پڑتا، مگر ایسا نہیں ہوا۔یہ پہلا موقع نہیں کہ طالبان کے اقتدار میں غیر پشتون عناصر کو منظم انداز میں دیوار سے لگایا گیا ہو۔ 20۲۱کے بعد قائم ہونے والی طالبان حکومت میں کابینہ، گورنرشپ، سکیورٹی اداروں اور حساس انتظامی عہدوں پر تقریباً مکمل طور پر پشتون طالبان کو تعینات کیا گیا۔ تاجک، ازبک اور ہزارہ شخصیات یا تو علامتی حیثیت رکھتی ہیں یا بالکل منظر سے غائب ہیں۔ اس تناظر میں فورسز میں کمی کا حالیہ فیصلہ ایک تسلسل کا حصہ ہے، کوئی اچانک اٹھایا گیا قدم نہیں۔طالبان کے ترجمان اس سے قبل فورسز میں کمی کو “تنظیمی افراط” کا نتیجہ قرار دے چکے ہیں۔
مگر سوال یہ ہے کہ یہ افراط صرف انہی یونٹس میں کیوں محسوس ہوا جہاں غیر پشتون طالبان کی تعداد زیادہ تھی؟ کیا قندھار، ہلمند یا ننگرہار میں طالبان فورسز مثالی توازن میں تھیں؟ حقیقت یہ ہے کہ طالبان کی اصل طاقت اور فیصلہ سازی کا مرکز بدستور قندھار شوریٰ ہے، جس پر ایک مخصوص نسلی اور قبائلی طبقے کی اجارہ داری ہے۔غیر پشتون طالبان جنگجوؤں کو فارغ کرنے کا ایک بڑا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ یہ افراد یا تو مایوسی اور بے روزگاری کا شکار ہو رہے ہیں یا پھر مزاحمتی اور شدت پسند گروہوں کے لئے نرم ہدف بنتے جا رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ اسلامی ریاست خراسان صوبہ، یعنی آئی ایس کے پی، جدید ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے اپنی سرگرمیاں بڑھا رہا ہے۔ ایسے میں تجربہ کار مگر ناراض جنگجوؤں کی بڑی تعداد کا سسٹم سے باہر ہونا ایک سنگین سکیورٹی خطرہ ہے۔
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ طالبان کی جانب سے دعویٰ کیا جاتا ہے کہ انہوں نے آئی ایس کے پی کو کچل دیا ہے، مگر اسی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ طالبان مسلسل بیرونی ممالک سے انسداد دہشت گردی میں مدد مانگ رہے ہیں۔ اگر طالبان واقعی مکمل کنٹرول میں ہیں تو پھر فورسز میں کمی اور تجربہ کار اہلکاروں کی برطرفی کس منطق کے تحت کی جا رہی ہے؟ اصل جواب یہی ہے کہ طالبان کے نزدیک نسلی وفاداری، پیشہ ورانہ اہلیت سے زیادہ اہم ہے۔
افغانستان میں اس وقت بیس سے زائد علاقائی اور عالمی شدت پسند تنظیموں کی موجودگی کی تصدیق اقوام متحدہ کر چکی ہے، جن میں القاعدہ، تحریک طالبان پاکستان، ترکستان اسلامی پارٹی اور اسلامی موومنٹ آف ازبکستان شامل ہیں۔ طالبان نے ان میں سے بعض گروہوں کے سابق جنگجوؤں کو مقامی سکیورٹی فورسز میں جذب بھی کیا ہے۔ اس سے نظریاتی اختلاط اور دراندازی کے خطرات بڑھ گئے ہیں، مگر اس سب کے باوجود تاجک اور ازبک طالبان کو فارغ کیا جا رہا ہے، جو اس امر کو مزید مشکوک بنا دیتا ہے۔فورسز میں 20فیصد کمی کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ طالبان کی مالی مشکلات ایک حقیقت ہیں، مگر اگر وسائل کی کمی واقعی بنیادی مسئلہ ہوتی تو شاہانہ انتظامی ڈھانچے، مذہبی پولیس کی توسیع اور خفیہ اداروں کے پھیلاؤ پر بھی نظر ثانی کی جاتی۔ اس کے برعکس کٹوتی کا نشانہ براہ راست وہ جنگجو بنے جو نسلی طور پر مرکزی قیادت سے مختلف ہیں اور جن کے پاس سیاسی اثر و رسوخ نہیں۔بدخشاں کا معاملہ خاص طور پر اہم ہے۔
یہ صوبہ نہ صرف تاجک اکثریت رکھتا ہے بلکہ یہاں طالبان کو اندرونی مزاحمت کا بھی سامنا رہا ہے۔ یہاں سے بڑے پیمانے پر برطرفیاں اس بات کی علامت ہیں کہ طالبان مقامی سطح پر کسی بھی ممکنہ چیلنج کو جڑ سے ختم کرنا چاہتے ہیں، چاہے اس کے لئے اپنے ہی جنگجوؤں کو کیوں نہ قربان کرنا پڑے۔طالبان کی نسلی بنیادوں پر قائم پالیسیوں کا سب سے بڑا نقصان افغانستان کے قومی ڈھانچے کو ہو رہا ہے۔ ایک ایسی ریاست جو پہلے ہی نسلی تقسیم، خانہ جنگی اور بیرونی مداخلت کا شکار رہی ہو، وہاں کسی ایک گروہ کی بالادستی امن و استحکام کے بجائے مزید انتشار کو جنم دیتی ہے۔ آج تاجک اور ازبک طالبان کو نکالا جا رہا ہے، کل یہ دائرہ کسی اور تک بھی پھیل سکتا ہے۔آخر میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ طالبان کی فورسز میں 20فیصد کمی کا فیصلہ ایک انتظامی اقدام کم اور نسلی تطہیر کا آلہ زیادہ ہے۔ جب تک طالبان اپنی پالیسیوں کو واقعی قومی، شمولیتی اور غیر نسلی بنیادوں پر استوار نہیں کرتے، افغانستان میں پائیدار امن ایک خواب ہی رہے گا۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ نے محض ایک جھلک دکھائی ہے، اصل کہانی اس سے کہیں زیادہ گہری اور تشویشناک ہے۔
طالبان کی نسلی پالیسیوں کی ایک اور سنگین جہت یہ ہے کہ اس امتیاز کا شکار صرف نچلی سطح کے جنگجو نہیں بنے بلکہ وہ کمانڈر بھی بنے جو طالبان کے محسن تھے ، جن کے بغیر شمالی افغانستان میں طالبان کی پیش قدمی، کابل کی فتح ممکن نہ تھی ۔ اقتدار مستحکم ہوتے ہی سب سے پہلے انہی ناموں کو چن چن کر یا تو دیوار سے لگایا گیا یا رسوا کن طریقے سے نکال باہر کیا گیا۔قاری وکیل کا معاملہ اس کی نمایاں مثال ہے۔ وہ ایک تاجک النسل، تجربہ کار اور بااثر سینئر کمانڈر تھا جس نے شمالی افغانستان میں طالبان کے لئے میدان ہموار کیا۔ 2022میں اس کی گرفتاری نے نہ صرف تاجک طالبان میں شدید بے چینی پیدا کی بلکہ یہ تاثر بھی مضبوط کیا کہ قیادت کو ان غیر پشتون کمانڈرز سے اصل خطرہ لاحق ہے جو مقامی آبادی میں اثر رکھتے ہیں۔
قاری وکیل کے خلاف تنازعات اور الزامات کو جس انداز میں استعمال کیا گیا، اس نے یہ پیغام دیا کہ نسلی شناخت اب وفاداری سے زیادہ اہم معیار بن چکی ہے۔ازبک کمانڈروں کے ساتھ رویہ اس سے بھی زیادہ سخت رہا۔ فاریاب کا قاری صلاح الدین ایوبی، شمال کا بہت بڑا نام ۔ کابل کی فتح کے دوران صدارتی محل کو فتح کرنےو الا کمانڈر ، طالبان کے حلقوں میں اسے’’فاتح ارگ” کاخطاب دیا گیا ، لیکن فتح کے کریڈت پر دست وگریباں قندھاری کیسے برداشت کر سکتے تھے ، 2022 میں اسے غیر مسلح کردیا گیا ، دوسال تک وہ صفایا دیتا رہا ، جب 2024 میں دیکھا کہ نام نہاد آمی چیف قاری فصیح کو بھی تاجک ہونے کی وجہ سے بے اختیار کردیا گیا ہے تو اس نےا ستعفیٰ دے دیا ، گرفتاری کی توہین کے بعد فاریاب میں گھر جا بیٹھا ۔ وہ کھل کر طالبان کی نسلی پالیسیوں پر تنقید کرتاہے۔ ایک ایسا کمانڈر جسے تحریک کی کامیابی کی علامت بنایا جا سکتا تھا، اسے عملاً باغی بنا دیا گیا۔ یہ صرف ایک فرد کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک پوری سوچ کی شکست ہے۔
اسی طرح مخدوم عالم ربانی، ایک اور ازبک سینئر کمانڈر، صرف ازبک ہونے کے جرم میں گرفتاری اور ذلت بھگتنا پڑی ، جو طالبان کے اندر یہ پیغام واضح تھا کہ غیر پشتون کمانڈر چاہے کتنا ہی بااثر کیوں نہ ہو، اسے طاقت کے مراکز سے دور رکھنا ضروری ہے۔ یہ طرز عمل کسی اصلاحی عمل کا حصہ نہیں بلکہ اعتماد شکنی اور تذلیل کے مترادف ہے۔عطا اللہ عمری کا معاملہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ فاریاب سے تعلق رکھنے والے اس ازبک کمانڈر کو شمالی افغانستان میں طالبان کا شیڈو گورنر اور اہم عسکری کمانڈر سمجھا جاتا تھا۔ مگر کچھ ہی عرصے بعد اسے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ اس برطرفی کے پیچھے بھی کوئی شفاف وجہ سامنے نہیں آئی۔ شمال میں عام تاثر یہی بنا کہ اسے اس لئے ہٹایا گیا کہ وہ مقامی سطح پر زیادہ مضبوط ہو چکا تھا اور اس کی نسلی شناخت مرکزی قیادت کے لئے قابل قبول نہیں رہی۔
ان مثالوں سے ایک واضح پیٹرن ابھرتا ہے۔ جن لوگوں نے طالبان کے لئے سب سے زیادہ قربانیاں دیں، جنہوں نے شمالی محاذ پر راستہ صاف کیا، اور جن کی وجہ سے طالبان کو کم مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، اقتدار کے بعد سب سے پہلے انہی کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ محض اتفاق نہیں بلکہ ایک سوچا سمجھا عمل ہے۔ طالبان قیادت کے نزدیک اصل خطرہ بیرونی دشمن نہیں بلکہ وہ غیر پشتون کمانڈر ہیں جو مقامی آبادی میں مقبول ہیں اور کسی بھی وقت سیاسی یا عسکری وزن حاصل کر سکتے ہیں۔اقوام متحدہ کی رپورٹ میں سکیورٹی فورسز میں 20فیصد کمی کو بجٹ بحران سے جوڑا گیا ہے، مگر جب اس فیصلے کو ان شخصیات کے انجام کے ساتھ جوڑا جائے تو اصل مقصد زیادہ واضح ہو جاتا ہے۔ فورسز میں کمی کا فیصلہ ایک ایسا آلہ بن گیا جس کے ذریعے غیر پشتون عناصر کو قانونی، انتظامی اور خاموش طریقے سے سسٹم سے باہر نکالا جا رہا ہے۔ اس عمل میں نہ صرف روزگار چھینا گیا بلکہ عزت، حیثیت اور اثر بھی ختم کیا گیا۔
ان پالیسیوں کے نتائج اب شمالی افغانستان میں واضح طور پر محسوس کئے جا رہے ہیں۔ تاجک اور ازبک آبادی میں یہ احساس تیزی سے پھیل رہا ہے کہ طالبان کی حکومت ان کی نہیں بلکہ ایک مخصوص نسلی گروہ کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شمال میں نفرت، بداعتمادی اور خاموش غصہ بڑھ رہا ہے۔ جو لوگ کل تک طالبان کے جھنڈے تلے لڑ رہے تھے، آج وہ خود کو دھوکہ خوردہ محسوس کر رہے ہیں۔یہ صورت حال تصادم کے خطرات کو بھی جنم دے رہی ہے۔ جب تجربہ کار جنگجو، سابق کمانڈر اور مقامی اثر رکھنے والے افراد کو مسلسل دیوار سے لگایا جائے گا تو وہ یا تو مزاحمت کی طرف جائیں گے یا پھر شدت پسند گروہوں کے لئے آسان شکار بنیں گے۔ اسلامی ریاست خراسان جیسے گروہوں کے لئے یہ حالات ایک موقع ہیں، جس کا ذکر خود اقوام متحدہ کی رپورٹ میں بھی کیا گیا ہے۔یہی پالیسیاں شمال میں نفرت کو بڑھا رہی ہیں اور یہی وہ عوامل ہیں جو افغانستان کو ایک بار پھر تصادم اور عدم استحکام کی طرف دھکیل سکتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ طالبان کون سی شریعت کا نام لیتے ہیں ؟ ان کی نسل پرستی ثابت کرتی ہے کہ وہ دین اور شریعت کے باغی ہیں ، شریعت کا نعرہ صرف سیاسی ہتھیار ہے ، کیونکہ اللہ رب العزت کا قرآن میں حکم ہے کہ ’’یااَیُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّ اُنْثٰى وَ جَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَآىٕلَ لِتَعَارَفُو -اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ خَبِیر۔( اے لوگوں ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا ، تمہارے قبائل اور خاندان بنائے تاکہ پہچانے جائو، اللہ کے نزدیک پسندیدہ وہی ہے ، کو متقی ہے ۔ لحضرات ۔13)۔حضرت ابو ذر غفاری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’نبی اکرم ﷺَکی موجودگی میںحضرت بلال سے میری تکرار ہوگئی تو میں نے کہا’’اے کالی عورت کے بیٹے !‘‘ آپ ﷺنے شدید ناپسند کیا اور فرمایا اے ابوذر! صاع پورا نہیں بھراجاتا، سفید عورت کے بیٹے کو سیاہ عورت کے بیٹے پرکوئی فضیلت نہیں ۔ حضرت ابو ذرُؓ فرماتے ہیں، میں لیٹ گیا اور بلال ؓسے کہا : اٹھو اور میرے رخسار پر پائوں رکھو ۔شریعت تو یہ ہے کہ آپ ﷺنے خطبہ حجۃ الوداع میں فرمایا ’’کسی گورے کو کالے پر ،کسی عرب کو عجمی پر کوئی فضلیت حاصل نہیں’’”
دیکھیں: طالبان کی واپسی کے بعد 68 لاکھ مہاجرین وطن واپس آ چکے؛ مولوی عبد الکبیر