فرحانہ خاتون پریشانی کے مارے سر تھامے بیٹھی تھیں۔ ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ آج اپنے بیٹے حسن کی خبر لیں۔ آخر وہ پریشان کیوں نہ ہوتیں، ابھی کچھ دیر پہلے ہی حسن کے بستے سے ویپ برآمد ہوا تھا۔ اتنے میں ان کا بڑا بیٹا عبداللہ کمرے میں داخل ہوا تو فرحانہ خاتون آزردہ لہجے میں بول اٹھیں
“کیا کمی رہ گئی تھی میری تربیت میں جو آج یہ دن دیکھنا پڑ رہا ہے؟ دیکھو ذرا! صاحبزادے نے کیا گل کھلایا ہے۔ دوستوں کی دیکھا دیکھی ویپ پینا شروع کر دیا ہے۔ میرا بس چلے تو اسی وقت اس کا کالج جانا بند کر دوں اور بٹھا دوں کسی مکینک کی دکان پر۔ بہت شوق ہے نا اسے اپنا مستقبل برباد کرنے کا! ہم ماں باپ تو بس نوکر ہیں نا، ان کی خدمت کے لیے، اور یہ یہاں عیش کریں!”
عبداللہ نے نرمی سے کہا
“امی، میں جانتا ہوں آپ کتنی پریشان ہیں۔ لیکن اگر آپ یونہی مایوسی کا اظہار کرتی رہیں گی تو ہوسکتا ہے حسن پر اس کے مزید منفی اثرات پڑیں۔ اس وقت اسے ڈانٹنے نہیں بلکہ رہنمائی کی ضرورت ہے۔”
گزشتہ چند برسوں میں دنیا کے کئی حصوں کی طرح پاکستان میں بھی ویپ کا استعمال نوجوانوں میں تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ای سگریٹ کو ابتدا میں تمباکو نوشی چھوڑنے کے ایک محفوظ متبادل کے طور پر پیش کیا گیا تھا مگر اب یہ خود ایک نئی عادت اور الگ کلچر بن چکا ہے۔ افسوس یہ ہے کہ اب اس کا استعمال ان نوجوانوں میں بھی عام ہے جنہوں نے کبھی سگریٹ کو ہاتھ تک نہیں لگایا تھا۔
پاکستانی شہروں، خاص طور پر کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں اسکول اور کالج کے طلبہ کے ویپ استعمال کرنے کی خبریں عام ہیں۔ ایک غیر سرکاری سروے کے مطابق، ملک میں تقریباً ہر پانچ میں سے ایک طالب علم نے کم از کم ایک بار ویپ آزمایا ہے۔ یہ شرح ہمیں خبردار کرتی ہے کہ ویپ صرف ایک “فیشن” نہیں رہا بلکہ ایک خاموش وبا کی شکل اختیار کر رہا ہے۔
ویپ دراصل ایک برقی آلہ ہے جو ایک خاص مائع کو گرم کر کے دھوئیں جیسی بھاپ میں بدل دیتا ہے۔ یہ بھاپ عام دھوئیں سے کم نقصان دہ سمجھی جاتی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس میں بھی نکوٹین کے ساتھ خطرناک کیمیکلز شامل ہوتے ہیں:
• باریک ذرات جو پھیپھڑوں میں جا کر جم جاتے ہیں۔
• ذائقہ پیدا کرنے والے کیمیکلز، جو پھیپھڑوں کی سنگین بیماریوں سے جڑا ہے۔
• بھاری دھاتیں مثلاً نکل، ٹن اور سیسہ۔
• ایسے مرکبات جو کینسر کا باعث بن سکتے ہیں۔
امریکن لنگ ایسوسی ایشن اور ہارورڈ یونیورسٹی کی رپورٹس بتاتی ہیں کہ ویپ کا براہِ راست اثر پھیپھڑوں، دل اور خون کی شریانوں پر پڑتا ہے۔ مزید یہ کہ مارکیٹ میں دستیاب 99 فیصد ویپ مصنوعات میں نکوٹین موجود ہے، جس سے نوجوانوں میں ایک نئی لہر کی طرح نکوٹین کی لت بڑھ رہی ہے۔
یہ لت صرف جسمانی نہیں بلکہ ذہنی صحت پر بھی اثر ڈالتی ہے۔ مختلف تحقیقات سے پتا چلتا ہے کہ ویپ کرنے والے نوجوان زیادہ ڈپریشن اور بے چینی کا شکار پائے گئے ہیں۔ ان میں خودکشی کے خیالات تک زیادہ پائے جانے کے امکانات ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ویپنگ کا تعلق “فوری لذت” کی عادت سے بھی ہے۔ جیسے سوشل میڈیا، گیمنگ اور دیگر عادات نوجوانوں کو وقتی سکون دیتی ہیں، ویپ بھی اسی زمرے میں آگیا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ نوجوان روزمرہ کی چھوٹی مشکلات اور دباؤ برداشت کرنے کے بجائے ویپ کو سہارا بنانے لگتے ہیں۔
ویپ سے بچاؤ کے لیے ماہرین چند اقدامات تجویز کرتے ہیں
• اپنے آپ کو پہچاننا: وقتی خواہش کو تسلیم کریں مگر اس کے غلام نہ بنیں۔
• ضبطِ نفس: صبر اور ضبط کی عادت پیدا کریں تاکہ ہر خواہش فوری پوری کرنے کی ضرورت نہ رہے۔
• سماجی اور حکومتی کردار: ویپ مصنوعات کی فروخت اور اشتہارات پر سخت قوانین، اور اسکول و کالج کی سطح پر آگاہی مہمات۔
آخر میں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ویپ کو سگریٹ کا محفوظ متبادل سمجھنے والے نوجوان دراصل ایک اور نئی اور زیادہ پیچیدہ لت کے جال میں پھنس رہے ہیں۔ اگر اس پر قابو نہ پایا گیا تو یہ پاکستان میں آنے والے برسوں میں ایک بڑے عوامی صحت کے بحران کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔
دیکھیں: اسرائیل کا قطر میں حماس کی قیادت پر فضائی حملہ، عالمی برادری کی شدید مذمت