“میں نے زندگی کو موت پہ غالب آتے دیکھا ہے ”
یہ الفاظ ایک نرس نے اس وقت ادا کیے جب اس نے موت کی جانب سفر کرتے مریضوں کو اپنے اعضاء عطیہ کرتے دیکھا۔
محمد عزیر ایک 30 سال کا کشمیری نوجوان تھا جو خوشیوں سے بھرپور زندگی گزار رہا تھا ۔ایک دن اچانک اس کے سر میں درد اٹھا ہسپتال لے کے گئے سی ٹی اسکین ہوا اور گھر والوں پہ یہ انکشاف ہوا کہ اس کے دماغ کی موت واقع ہوچکی ہے اور اب اس کے پاس محض چند ہی گھنٹے ہیں ۔اس موقع پہ مریض کی ڈاکٹر بہنوں نے انسانیت کی خدمت کا عظیم فیصلہ کیا اور اپنے بھائ کے اعضاء بعد از مرگ وقف کرنے کا اعلان کردیا ۔
ان کے اس فیصلے نے ایک مریض کی بینائی لوٹا دی ،ایک مریض کا جگر پھر سے کام کرنے لگا ،دو مریضوں کے گردے ٹھیک ہوگئے ۔شوگر کے ایک مریض کا لبلبہ بدل دیا گیا۔ یوں پانچ انسانی جانیں پھر سے زندگی کی طرف پلٹ آئیں۔۔
تیرہ گست کا دن دنیا بھر میں انسانی اعضاء عطیہ کرنے کے دن کے طور پہ منایا جاتا ہے۔
اہمیت
یہ دن دنیا بھر میں انسانی اعضاء عطیہ کرنے کی اہمیت اجاگر کرنے کے لیے منایا جاتا یے تاکہ زندگی سے مایوس لوگوں کو نئی زندگی مل سکے۔
اعضاء عطیہ کرنے کی اقسام
اعضا، آنکھ اور ٹشو عطیہ کرنے کی اقسام
یہ چار بنیادی اقسام ہیں، جو اس بات پر منحصر ہیں کہ عطیہ کب اور کس طرح کیا جاتا ہے:
1. زندہ عطیہ
جب عطیہ دینے والا شخص زندہ ہو۔
یہ اُن اعضاء یا حصوں کے لیے ہوتا ہے جو جزوی طور پر نکالنے کے بعد بھی کام کر سکتے ہیں۔
مثالیں: ایک گردہ، جگر کا حصہ، یا بون میرو۔
2. مرنے کے بعد عطیہ
جب کسی شخص کو دماغی طور پر مردہ یا دل کی دھڑکن رک جانے کے بعد مردہ قرار دے دیا جائے۔
عطیہ دینے والے کے اعضاء کو طبی سہولت کے ذریعے قابلِ استعمال حالت میں رکھا جاتا ہے اور پھر پیوندکاری کے لیے نکالا جاتا ہے۔
مثالیں: دل، پھیپھڑے، گردے، جگر، لبلبہ، آنتیں۔
3. ٹشو عطیہ
یہ زندہ یا مرنے کے بعد دونوں صورتوں میں ممکن ہے، لیکن اکثر موت کے بعد کیا جاتا ہے۔
ٹشو کو محفوظ کرکے بعد میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔
مثالیں: قرنیہ (آنکھ کا ٹشو)، جلد، رگیں، دل کے والوز، ہڈیاں، لیگامنٹس۔
4. آنکھ (قرنیہ) عطیہ
اص طور پر آنکھ کے قرنیہ کے عطیہ کو کہا جاتا ہے۔
عموماً مرنے کے بعد کیا جاتا ہے۔
اس سے اُن افراد کی بینائی بحال کی جاتی ہے جن کا قرنیہ خراب ہو یا بیماری کا شکار ہو۔
دنیا بھر میں سب سے زیادہ عطیہ کیے جانے والا اعضاء گردے ہیں ۔
وہ مریض جنہیں دوسروں کے اعضاء لگائے جارہے ہوتے ہیں ان کے ٹیسٹ کیے جاتے ہیں کہ آیا ان کا جسم اس تبدیلی کو قبول کرسکے گا کہ نہیں ۔۔
دنیا بھر میں ہزاروں مریض اس امید پہ زندہ ہیں کہ کوئ انہیں اپنے اعضاء عطیہ کردے ۔
پاکستان میں اعضاء عطیہ کرنے کا رجحان
پاکستان میں اعضاء عطیہ کرنے کا رجحان گو کہ بہت کم ہے تاہم اس بارے میں شعور و آگہی کے ذریعے بہتری کی گنجائش ہے ۔
حال ہی میں کراچی کی ایک ماہر امراض گردہ ڈاکٹر نے ایک عظیم مثال اس وقت قائم کی جب انہوں نے اپنے بیس سالہ نوجوان بیٹے کی ایکسیڈینٹ سے وفات کے بعد اس کے اعضاء عطیہ کرنے کا فیصلہ کیا ۔ان کے اس فیصلے کو سوشل میڈیا پہ بہادری کے عظیم کارنامے کے طور پہ بہت سراہا گیا ۔
دنیا میں سب سے زیادہ اعضاء عطیہ کرنے والے ممالک
اعضاء عطیہ کرنے والے ممالک میں اسپین ،امریکہ اور کروشیا سب سے آگے ہیں ۔ان کے بعد بیلجیم اور پرتگال کا نمبر ہے ان ممالک نے اعضاء عطیہ کرنے کے حوالے سے بھر پور مہم چلائ اور عوام میں شعور بیدار کیا
اسلام میں اعضاء عطیہ کرنے کی شرعی حیثیت
اس بارے میں مختلف مکاتب فکر کی رائے میں فرق دیکھا جاسکتا یے۔۔
تاہم تمام مکاتب اس بات پہ متفق ہیں کہ ” ایک انسان کی زندگی بچانے کا مطلب ہے گویا پوری انسانیت کو بچا لیا گیا ہو”
اعضاء عطیہ کرنے والے کے جسم کی حرمت کا خیال رکھنا اور اس کے لواحقین کی اجازت ضروری ہے۔
اس کام کو کاروبار بنانا حرام عمل ہے ۔
غرض اعضاء عطیہ کرنا ایک ایسا عمل ہے جس کے ذریعے دنیا سے منہ موڑنے والی جان کسی اور جسم میں زندگی بن کے دوڑنے لگتی ہے ۔