امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں ایک پریس کانفرنس کے دوران اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے ہمراہ ایک 20 نکاتی منصوبہ پیش کیا، جسے انہوں نے “غزہ جنگ بندی اور مشرق وسطیٰ کے دیرپا امن” کے لیے ایک فیصلہ کن فریم ورک قرار دیا۔
اس موقع پر صدر ٹرمپ نے پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف اور آرمی چیف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی حمایت پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ “پاکستانی قیادت نے منصوبے کی 100 فیصد تائید کی ہے”۔
ٹرمپ کا پرامید مؤقف
صدر ٹرمپ نے پریس کانفرنس میں کہا کہ “یہ دن تاریخ کا ایک اہم موڑ ہے، ہم غزہ تنازع کے خاتمے کے بہت قریب ہیں۔” ان کا کہنا تھا کہ “صدیوں سے جاری تنازعات اب اختتام کے قریب ہیں اور امن کے لیے ایک سنہری موقع ہمارے سامنے ہے۔” انہوں نے مزید کہا کہ ان کا مقصد صرف غزہ ہی نہیں بلکہ پورے مشرق وسطیٰ میں امن قائم کرنا ہے۔
اکیس نکاتی منصوبے کے بنیادی خد و خال
ٹرمپ کے منصوبے میں واضح کیا گیا ہے کہ غزہ کو انتہاپسندی اور دہشت گردی سے پاک خطہ بنایا جائے گا، جبکہ فوری جنگ بندی کے بعد اسرائیلی افواج مرحلہ وار انخلا کریں گی۔ تمام اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی 72 گھنٹوں کے اندر ہوگی اور اس کے بدلے میں اسرائیل 250 عمر قید قیدیوں اور 1700 گرفتار فلسطینیوں کو رہا کرے گا۔
پرامن حماس اراکین کو عام معافی دی جائے گی جبکہ غیر مطمئن افراد کو محفوظ راستہ فراہم کیا جائے گا۔ اس دوران روزانہ کم از کم 600 ٹرک امداد غزہ میں داخل ہوں گے تاکہ انسانی بحران کم ہو سکے۔ تعمیر نو کے لیے ایک عالمی کمیٹی نگرانی کرے گی اور عبوری طور پر غزہ کو ایک ٹیکنوکریٹ حکومت چلائے گی۔
اس کے ساتھ ہی ایک بین الاقوامی “بورڈ آف پیس” تشکیل دیا جائے گا جس کی سربراہی صدر ٹرمپ کریں گے۔ منصوبے کے تحت ماہرین کی مدد سے غزہ کو جدید شہروں کے طرز پر دوبارہ تعمیر کیا جائے گا۔
یہ تمام نکات مجموعی طور پر غزہ میں امن کے قیام، تعمیر نو اور خطے میں پائیدار امن قائم کرنے کے لیے ترتیب دیے گئے ہیں۔
“بورڈ آف پیس” کا قیام
ٹرمپ نے اعلان کیا کہ ایک نیا بین الاقوامی نگران ادارہ “بورڈ آف پیس” تشکیل دیا جائے گا۔ یہ ادارہ عرب ممالک، اسرائیل اور دیگر عالمی رہنماؤں کی شمولیت سے غزہ کے امور کی نگرانی کرے گا۔ سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر کو اس ادارے کا پہلا رکن نامزد کیا گیا ہے۔
ٹرمپ کے مطابق، “یہ ادارہ غزہ کی تعمیر نو اور عبوری حکومت کی معاونت کرے گا، ساتھ ہی ایک جدید، شفاف اور پائیدار نظام کی بنیاد رکھے گا۔”
پاکستان کی حمایت اور کردار
ٹرمپ نے اپنی تقریر میں وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف اور آرمی چیف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی کھل کر تعریف کی۔ انہوں نے کہا کہ “پاکستانی قیادت نے نہ صرف ہماری تجویز کی حمایت کی بلکہ امن کے عمل میں شراکت داری بھی دکھائی۔”
یہ بیان اس امر کی عکاسی کرتا ہے کہ امریکا پاکستان کو اس امن منصوبے کا ایک کلیدی شراکت دار دیکھ رہا ہے۔
عرب، ایشیائی اور یورپین ممالک کا حمایت کا اعلان
پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے ٹرمپ کے اس منصوبے کا خیر مقدم کیا اور اسے غزہ میں قیام امن کیلئے خوش آئند قرار دیا۔ اس کے علاوہ عرب ممالک بشمول سعودی عرب، قطر اور کویت نے بھی اس منصوبے کا خیر مقدم کرتے ہوئے ترمپ کا شکریہ ادا کیا۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی، ترک صدر اردوان اور دیگر ممالک کے سربراہان نے بھی ٹرمپ کی تعریف کی اور امید ظاہر کی کہ یہ منصوبہ مشرق وسطی میں قیام امن کیلئے اپنا کلیدی کردار ادا کرے گا۔
اس کے علاوہ برطانوی وزیراعظم اسٹارمر اور فرانسیسی صدر میکرون نے اپنے ٹویٹس میں صدر ٹرمپ کے اس منصوبے کا خیر مقدم کیا ہے۔
اسرائیل اور قطر کے درمیان سہ فریقی تعاون
ٹرمپ نے انکشاف کیا کہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے قطری ہم منصب سے ایک فضائی حملے پر معذرت کی ہے اور اب تینوں ممالک—امریکا، اسرائیل اور قطر—کے درمیان ایک باضابطہ سہ فریقی نظام قائم کرنے پر اتفاق ہوا ہے۔
حماس پر دباؤ
منصوبے کے مطابق، اگر حماس اس معاہدے کو قبول کر لیتی ہے تو اسے محدود وقت کے اندر تمام یرغمالیوں کو رہا کرنا ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی حماس کو اپنے عسکری ڈھانچے سے دستبردار ہونا پڑے گا۔ تاہم اگر حماس انکار کرتی ہے تو منصوبہ دہشتگردی سے پاک علاقوں میں نافذ کر دیا جائے گا۔
ٹرمپ نے واضح الفاظ میں کہا کہ “اگر حماس پیچھے ہٹی تو نیتن یاہو کو میرا مکمل تعاون حاصل ہوگا۔ امریکی صدر نے مزید کہا کہ اگر حماس نے ان منصوبے سے انکار کیا تو اسے مکمل نیست و نابود کر دیا جائے گا۔
فلسطینی ریاست کی راہ ہموار ہونے کا امکان
ٹرمپ کے منصوبے میں فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ بھی ہموار کرنے کی بات کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ “فلسطینی اتھارٹی کی اصلاحات کے مکمل ہونے کے بعد ایک خودمختار فلسطینی ریاست ممکن ہو سکے گی۔”
یہ نکتہ فلسطینی عوام کے دیرینہ مطالبے کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے، لیکن ساتھ ہی یہ شرط بھی عائد کی گئی ہے کہ حماس کو حکومت میں کوئی کردار نہیں دیا جائے گا۔
یاد رہے کہ حال ہی میں برطانیہ، آسٹریلیا، بیلجیئم، فرانس، اور اسپین سمیت کئی دیگر ممالک نے فلسطین کو باضابطہ تسلیم کرتے ہوئے دو ریاستی حل کی ضرورت پر زور دیا تھا۔
ٹونی بلئیر بھی مذاکرات کا حصہ ہوں گے
منصوبے کے مطابق غزہ میں ایک ”بورڈ آف پیس“ بنایا جائے گا جس کی سربراہی ٹرمپ کریں گے، جبکہ سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کو بھی اس میں شامل کیا جائے گا۔
حماس اور آسٹریلیا سمیت کئی ممالک اور تجزیہ نگاروں نے ٹونی بلیئر کی نامزدگی پر شدید تشویس ظاہر کی ہے۔ ٹونی بلیئر کا ماضی میں متنازعہ کردار ان کے انتخاب پر گہرے سوالات کھڑے رہا ہے۔
ٹرمپ کا 21 نکاتی منصوبہ خطے کے لیے ایک بڑی پیش رفت کے طور پر سامنے آیا ہے۔ اس کے ذریعے فوری جنگ بندی، انسانی جانوں کا تحفظ اور مستقبل میں فلسطینی ریاست کے قیام کی امیدیں وابستہ کی جا رہی ہیں۔
تاہم یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ آیا یہ منصوبہ عملی طور پر کامیاب ہوگا یا نہیں، کیونکہ خطے کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ امن کی راہیں اکثر مشکل ثابت ہوتی ہیں۔ بعض مبصرین کے مطابق، اس منصوبے کی سب سے بڑی رکاوٹ حماس کا مؤقف اور اسرائیل کے عملی اقدامات ہوں گے۔
دیکھیں: امریکی صدر ٹرمپ کی اردوان سے اہم ملاقات، غزہ اور یوکرین میں جنگ بندی پر گفتگو