چند روز قبل بھارتی کپتان سوریا کمار یادو نے پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین محسن نقوی سے ملاقات کے دوران مصافحہ کیا تھا، جس پر بھارت میں انہیں کڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔

September 15, 2025

عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ کارروائی خفیہ معلومات کی بنیاد پر کی گئی اور اس کے نتیجے میں ایک بڑے نیٹ ورک کو شدید دھچکا پہنچا ہے۔

September 14, 2025

کشمیر میں ظلم و زیادتی، اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک، اور پاکستان مخالف کارروائیاں نہ صرف بھارت میں بلکہ فوج کے اندر اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے اہلکاروں کے جذبات کو مجروح کرتی ہیں۔

September 14, 2025

بانی پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پرمواد پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ بھارت سے کوئی شخص اکاؤنٹ چلا رہا ہے

September 14, 2025

واضح رہے کہ وزیراعظم شہباز شریف، آرمی چیف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر اور دیگر اعلیٰ حکام نے شہداء کی نماز جنازہ میں شرکت کی تھی۔

September 14, 2025

ذرائع کا کہنا ہے کہ سب سے نمایاں نام ٹی ٹی پی کی سیاسی کمیشن کے سربراہ مولوی فقیر باجوڑی کے بیٹے مولوی فرید منصور کا ہے،

September 14, 2025

پنجابی صوبہ تحریک: سِکھ برادری سے کیا گیا وعدہ وفا نہ ہوا

پنجابی صوبہ تحریک سِکھوں کی لسانی شناخت کی جدوجہد تھی جسے ریاست نے دبایا، تقسیم کیا اور مکمل تسلیم نہ کر کے جمہوری وعدے ادھورے چھوڑے

1 min read

پنجابی صوبہ لسانی شناخت کی جدوجہد

پنجابی صوبہ تحریک سِکھوں کی لسانی شناخت کی جدوجہد تھی جسے ریاست نے دبایا، تقسیم کیا اور مکمل تسلیم نہ کر کے جمہوری وعدے ادھورے چھوڑے

June 12, 2025

پنجابی صوبہ تحریک کے باوجود سِکھ برادری کی لسانی شناخت کے مطالبات کو بھارتی ریاست نے دبایا، تاخیر کا شکار بنایا اور مکمل طور پر تسلیم نہ کیا۔

نہرو کے وعدے اور لسانی ناانصافی
1950 کی دہائی میں وزیراعظم جواہر لال نہرو نے اکالی رہنما ماسٹر تارا سنگھ سے وعدہ کیا کہ ریاستوں کی تنظیم نو لسانی بنیادوں پر کی جائے گی اور پنجابی صوبہ بھی اس میں شامل ہوگا۔

تاہم 1956 کے تمل، تیلگو، اور بنگالی کو تو تسلیم کیا گیا مگر پنجابی کو نظرانداز کر دیا گیا۔ اس سیاسی دھوکے نے سِکھ برادری میں شدید غصہ اور بے چینی،تحفظاف پیدا کیے۔

پنجابی صوبہ تحریک اسی لسانی ناانصافی کے خلاف ایک پرامن ردعمل تھی، لیکن حکومت نے اسے سنجیدگی سے لینے کے بجائے سِکھ علیحدگی پسندی میں دال دیا۔

سِکھ شناخت کو ریاستی سازش کے ذریعے مسخ کیا گیا
1950 اور 1960 کی دہائی میں کانگریس کی زیر قیادت حکومت نے پنجابی صوبہ تحریک کو فرقہ واریت قرار دیا۔ مورارجی ڈیسائی جیسے رہنماؤں نے اکالی دل کے لسانی مطالبات کو مسترد کر کے انہیں متعصب بنا کر پیش کیا۔

1951 اور 1961 کی مردم شماری میں حکومتی دباؤ کے تحت پنجابی بولنے والے ہندوؤں سے کہا گیا کہ وہ ہندی کو مادری زبان ظاہر کریں۔ اس عمل نے اصل اعداد و شمار کو مسخ کر کے پنجابی صوبہ کے جواز کو کمزور کیا۔

1960 میں 57,000 سے زائد سِکھ رضاکاروں نے پرامن سول نافرمانی کی تحریک میں حصہ لیا جس پر ریاست نے اجتماعی گرفتاریاں شروع کر دیں۔

ایک منقسم اور کمزور پنجابی صوبہ
1966 میں طویل احتجاج کے بعد وزیراعظم اندرا گاندھی نے پنجابی صوبہ کے قیام کی منظوری دی مگر ساتھ ہی اسے کئی حصوں میں تقسیم کر دیا۔ ہریانہ الگ ریاست بنا دی گئی، پہاڑی پنجابی علاقے ہماچل پردیش میں شامل کر دیے گئے اور چندی گڑھ کو مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنا دیا گیا۔

پنجاب کے آبی وسائل پر بھی مرکز نے کنٹرول حاصل کر لیا جس سے سِکھ برادری کی معاشی خودمختاری متاثر ہوئی۔ اس تقسیم نے سِکھ مطالبات کو مزید پیچیدہ کر دیا اور مستقبل میں خالصتان تحریک جیسے شدت پسند رجحانات کی بنیاد ڈال دی۔

آج پنجابی صوبہ تحریک بھارتی جمہوریت کے ان ادھورے وعدوں کی یادگار ہے جو اقلیتوں اور علاقائی خودمختاری کے حقوق کو پوری طرح تسلیم نہیں کر سکی۔

دیکھیئے سِکھ انصاف سے انکار: دہائیوں پر محیط دھوکہ اور مزاحمت

متعلقہ مضامین

چند روز قبل بھارتی کپتان سوریا کمار یادو نے پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین محسن نقوی سے ملاقات کے دوران مصافحہ کیا تھا، جس پر بھارت میں انہیں کڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔

September 15, 2025

عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ کارروائی خفیہ معلومات کی بنیاد پر کی گئی اور اس کے نتیجے میں ایک بڑے نیٹ ورک کو شدید دھچکا پہنچا ہے۔

September 14, 2025

کشمیر میں ظلم و زیادتی، اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک، اور پاکستان مخالف کارروائیاں نہ صرف بھارت میں بلکہ فوج کے اندر اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے اہلکاروں کے جذبات کو مجروح کرتی ہیں۔

September 14, 2025

بانی پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پرمواد پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ بھارت سے کوئی شخص اکاؤنٹ چلا رہا ہے

September 14, 2025

رائے دیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *