ریاست پاکستان نے دہائیوں سے لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی کرتے ہوئے عظیم سخاوت کا مظاہرہ کیا۔ پاکستان کی حالیہ پالیسی کے مطابق افغان مہاجرین کو وطن واپس بھیجا جا رہا ہے جس کی وجہ سے پاکستان اپنے ہمسایہ ملک افغانستان کے ساتھ تعلقات کے ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ تاہم پاکستان کی حالیہ پالیسی محض جذبات پر مبنی نہیں بلکہ موجودہ حالات کا جائزہ لیتے ہوئے دور اندیشی اور مصلحت کی بناء پر پالیسی مرتب کی گئی ہے۔ افغانستان کے استحکام کی جانب بڑھتے قدم یہ ثابت کرتے ہیں کہ مہاجرین کے لیے اپنی سرزمین افغانستان میں رہن سہن کے بہتر مواقع موجود ہیں۔ حالیہ پالیسی پر جہاں مہاجرین تحفظات کا شکار ہیں تو ساتھ ہی عالمی برادری بھی تحفظات کا شکار ہے کہ مذکورہ اقدام کو انسانی اقدار و اصولوں کی روشنی میں مرتب کیا جائے۔ بالخصوص افغان مہاجرین سے متعلق پاکستان، ایران کی حالیہ پالیسی کے بعد بین الاقوامی سطح پر افغان مہاجرین قضیہ زبان زدِ عام ہے۔ آئیے افغان ہجرت کے تاریخی پس منظر کا جائزہ لیتے ہیں کہ وجہِ ہجرت کیا تھی اور اس کے خطے میں کیا اثرات مرتب ہوئے۔
سویت یونین نے 1979 میں افغان سرزمین پر حملہ کیا۔ یاد رہے کہ سویت یونین 80، 90 کی دہائی میں سپر پاور تھی۔ اس حملے نے افغان شہریوں کی زندگی کو اجیرن کرکے رکھ دیا، نہ صرف افغانستان بلکہ پورے خطے کے امن و استحکام کو بھی تہ و بالا کر دیا۔ جب افغان شہریوں نے دیکھا کہ اب تو جان بچانا بھی مشکل دکھائی دیتا ہے تو انہوں نے دل پر پتھر رکھتے ہوئے آبائی زمین کو خیر آباد کہتے ہوئے ہمسایہ ممالک پاکستان و ایران کی جانب ہجرت کی۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت افغان مہاجرین کی تعداد تیس لاکھ سے زائد تھی۔
یاد رہے افغان۔ سویت یونین جنگ ایک دہائی پر محیط رہی جس میں سویت یونین اپنے زعم میں خود کو فاتح سمجھ کر افغان سرزمین پر وارد ہوا لیکن 10 سال جنگ کرنے کے بعد شکست خوردہ سرزمین افغانستان سے نکلا۔
سویت یونین کی تنزلی کا آغاز بھی افغان جنگ سے شروع ہوا جس میں معیشت کا گرنا، ریاستوں کا علَمِ بغاوت بلند کرنا سمیت دیگر کئی حوادث شامل ہیں۔
افغان حکام اقتدارِ اعلی پر براجمان ہوئے تو افغان مہاجرین (جو پاکستان، ایران میں بس رہے تھے) بعض مہاجرین نے واپسی کی راہ لی اور اپنے آبائی وطن افغانستان میں آباد ہونے لگے، جبکہ اکثریت یہاں ہی رہنے لگی۔
سویت یونین کے جانے کے بعد ڈاکٹر نجیب اللہ نے 1989 سے 1992 تک اقتدار سنبھالا لیکن اس دوران اندرونی مسائل بالخصوص سویت یونین کے خلاف نبرد آزما رہنے والے مجاہدین کے مابین یہ تین سالہ دورانیہ اندرونی خلفشار کا شکار رہا۔ پھر 1992 سے 1996کے دورانیے میں احمد مسعود شاہ، گلبدین، حکمت یار وغیرہ برسرِ اقتدار رہے۔
طالبان کا دورِ حکومت
طالبان نے 1996میں تمام گروہوں کو مات دیتے ہوئے افغانستان کا اقتدارِ اعلیٰ سنبھالا۔ پھر ایک ایسا وقت بھی آیا کہ طالبان نے افغانستان کے نوے فیصد علاقے پر مکمل کنٹرول تو حاصل کرلیا لیکن اسکے ساتھ ساتھ مزاحمتی گروہوں نے اپنی کوششیں جاری رکھیں۔ نتیجتاً بالآخر ۲۰۰۱ میں نائن الیون کے واقعے کی بناء طالبان حکومت کا سورج غروب ہوا۔
ہجرت کا دوسرا مرحلہ
جب سویت یونین کو شکست سے دوچار ہونا پڑا اور اُلٹے پاؤں بھاگنے پر مجبور ہوئے تو ابھی افغان سرزمین کے باسی سُکھ کا سانس بھی نہ لے پائے تھے کہ امریکہ کی نظریں افغانستان و گرم پانی کے گرد گردش کرنے لگیں۔ یاد رہے کہ سویت یونین کی واپسی اور امریکہ کی آمد کے درمیانے عرصے میں افغان حکام احمد مسعود شاہ، گلبدین، حکمت یار ۱۹۸۹ سے ۲۰۰۱ تک برسرِ اقتدار تو رہے لیکن خطے کو امن و استحکام نصیب نہ ہوپایا۔ وہ اندرونی انتشار و خلفشار کے باعث آپس میں اُلجھتے رہے اور حکومت مستحکم نہ ہوپائی۔ اگر ماضی کی جانب نظر دوڑائی جائے تو جتنا نقصان افغان سرزمین کو باہمی تنازعات کے نتیجے میں ملا، ناقابلِ بیان ہے۔
حالیہ دنوں میں ایک مرتبہ پھر افغان طالبان اندرونی اختلافات کا شکار ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں عوام کو پھر ماضی کی جانب دھکیلا جارہا ہو؟ افغان طالبان کے رہنماؤں کو بھی اس بارے میںں سنجیدگی سے غور و فکر کرنا ہوگا کہ کہیں آپ افغان ریاست کو ماضی کی جانب تو نہیں دھکیل رہے؟ اور ساتھ ہی افغان سرزمین پر مجاہدین کی کئی دہائیوں پر محیط عظیم قربانیوں کو کہیں رائیگاں تو نہیں کیا جارہا؟
افغان شہری ایک مرتبہ پھر اپنی جان بچانے کی خاطر ہجرت کے ارادے سے اپنے وطن اصلی کو ترک کرنے پر مجبور ہوئے تو ہمسایہ ممالک بالخصوص پاکستان نے ایسے بھرپور ایثار کا مظاہرہ کیا کہ ہجرتِ مدینہ اور انصار و مہاجرین کے ایثار کی جھلک دیکھنے کو ملی۔
پاکستان اپنے سرحدی دروازے کھولتے ہوئے اپنے بھائیوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے اپنی بستیوں میں مہاجرین کو ٹھکانہ دیا۔ یاد رہے افغان مہاجرین کئی لاکھ پر مشتمل تھے لیکن ریاست پاکستان نے عالمی ریکارڈڈ مہاجرین کو نہ صرف ٹھکانہ دیا بلکہ اپنے مہاجر بھائیوں کا بھرپور خیال رکھا۔
مسلم دُنیا نے ایک مرتبہ پھر افغان سرزمین پر ظلم ہوتے ہوئے دیکھا تو امت محمدیہ کے قوتِ ایمانی سے لبریز مجاہدوں نے افغان سرزمین کا رُخ کیا۔ یوں عرب و عجم میں پھر کوئی تفریق نہ رہی۔ برادر اسلامی ملک پاکستان کے جوانوں سمیت دنیا بھر کے مسلم جوانوں نے اس جنگ میں حصہ لیا اور دو دہائیوں پر مشتمل اس جنگ میں سپر پاور امریکہ کو اپنے خوابوں سمیت افغان سرزمین سے نکلنے پر مجبور کیا۔ نتیجتاً امریکہ کو بُری طرح سے معاشی، سیاسی اور اقتصادی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔
نومبر2023 سے 2025 تک کے اعداد و شمار
مہاجرین کے لیے مرتب کردہ پالیسی جون 2025 تک ایک متوازن نقطہ نظر اپناتی ہے جو قومی سلامتی کے تحفظ اور انسانی ہمدردی کے درمیان توازن قائم کرتی ہے۔ جون 2025 تک تقریباً 900,000 افغان شہری واپس جا چکے ہیں، جن میں 50,000 سے زائد ڈیپورٹیشنز اور 60,000 رضاکارانہ واپسیاں شامل ہیں، جبکہ پاکستان میں اب بھی تقریباً 1.2 ملین رجسٹرڈ اور 1.5 ملین غیر دستاویزی افغان موجود ہیں۔ پاکستان طویل المدتی حل پر توجہ دے رہا ہے، جس میں افغان عبوری حکومت کے ساتھ تعاون، انسانی بحران کے انتظام، اور علاقائی استحکام کو فروغ دینا شامل ہے۔
مہاجرین کے مسائل
حالیہ ایام میں مہاجرین سے متعلق پاکستان و ایران حکومت نے پالیسی جاری کیا ہے تو مہاجرین کو شدید اضطراب کی کیفیت میں دیکھا گیا جو برس ہا برس سے پاکستان و ایران میں مقیم تھے۔ ظاہری سی بات ہے جنکی کُل متاع پاکستان میں ہے جیسے پراپرٹی، کاروبار ، تعلیم اور صحت سمیت دیگر کئی اہم چیزیں جو شعبہ ہائے زندگی تعلق رکھتی ہیں۔ ان سب سے اتنی آسانی سے کیسے دستبردار ہوا جا سکتا ہے۔ مہاجرین کی جانب سے مطالبہ کیا جارہاہے کہ تدریجی بنیادوں ایسے اقدامات کیے جائیں اور فی الوقت اس طرز کی پالیسیوں کے متحمل نہیں ہیں۔
یہ ہجرت انسانی تاریخ کی بڑی ہجرتوں میں شمار ہوتی ہے۔ لازمی سی بات ہے کہ اس کے اثرات بھی اسی طرح عمیق ہونگے۔
پاکستان کو درپیش تحدیات
افغانستان کے مسائل اور پاکستان کی بہترین میزبانی کے بعد اس بات کا تجزیہ بھی ضروری ہیکہ آخر پاکستان کو مذکورہ اقدام کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
ایک وقت تھا پاکستان نے افغان مہاجرین کا بھرپور استقبال کرتے ہوئے باہیں پھیلا کر خوش آمدید کہا تھا، مہاجرین کو ٹھکانہ دیتے ہوئے میزبانی کا حق ادا کیا۔ لیکن جب میزبان ہی مہمان سے محفوظ نہ ہو اور مہمان ہی میزبان کے سکون میں خلل ڈالنے لگیں تو میزبان اپنے فعل پر نظر ثانی کرتا ہے۔ نیز پاکستان کے معاشی اور اقتصادی نظام پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہوئے جس کی وجہ سے اسلحہ، اسمگلنگ اور دہشتگردی سمیت دیگر جرائم میں بے پناہ اضافہ ہوا جوکہ ڈھکے چپے نہیں۔ اس صورتحال کے پیش نظر ضرورت اس امر کی ہے کے پاکستان کی اتنی طویل میزبانی پر مہاجرین و افغان حکام کو پاکستان کا شگرگزار ہونا چاہیئے۔ نیز افغان حکومت بھی اپنے عوام کے لیے ایسے اقدامات بروئے کار لائیں کہ جس سے انکی زندگی متاثر ہو پائے۔
دیکھیں: ٹرانس افغان ریلوے منصوبہ: پاکستان، افغانستان اور ازبکستان کا تاریخی معاہدہ طے پا گیا