غزہ: صحافت کی دنیا کی ایک توانا آواز انس الشریف اسرائیلی حملے میں جامِ شہادت نوش کرگئے۔ اسرائیلی فوج نے اتوار کی رات غزہ کے الشفا ہسپتال کے مرکزی دروازے کے قریب خیمے پرحملہ کیا، حملے میں انس الشریف پانچ ساتھیوں سمیت شہید ہوئے، جن میں محمد قریقیہ، مؤمن علیوہ اور محمد نوفل شامل ہیں۔
اسرائیلی فوج نے حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے الجزیرہ کے مشہور صحافی انس الشریف پر الزام عائد کیا کہ وہ مزاحمتی تحریک حماس کے ایک خفیہ گروپ کی قیادت کر رہے تھے، تاہم اس دعوے پر تاحال کوئی ثبوت نہیں آسکا۔
دیکھا جائے تو انس الشریف اور ان کے ساتھی صحافی غزہ کی مظلومیت اور اسرائیلی سفاکیت کو دنیا کے سامنے کے لیے سرگرم تھے۔ اسرائیلی حملوں کے ابتدا سے اب تک تقریبا 200 سے زائد صحافت سے وابستہ افراد کو شہید کیاجاچکا ہے۔
انس الشریف کی وصیت
انس الشریف لکھتے ہیں کہ اگر میرے یہ الفاظ آپ تک پہنچ جائیں تو سمجھیں کہ اسرائیل مجھے قتل کرنے اور میری آواز کو دبانے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ سب سے پہلے آپ پر اللہ کی سلامتی و رحمت ہو۔ یقیناً اللہ رب العزت کی ذات بخوبی علم رکھتی ہیکہ میں نے اپنی قوم کے لیے ہرممکنہ کوشش کی اور پوری طاقت صرف کردی۔ میری خواہش تھی کہ اللہ میری زندگی طویل کردے تاکہ میں اپنے گھر اور پیاروں کے ساتھ اپنے آبائی شہر عشقلان لوٹ سکوں، مگر اللہ کی منشاء مقدم رہی۔
انس الشریف اپنی وصیت میں مزید لکھتے ہیں کہ میں نے درد کے ہر رنگ کو سہا، مصائب و تکالیف کو برداشت کیا، مگر حق و سچ سے روگردانی نہیں کی اور ہمیشہ سچ ناظرین تک پہنچایا ۔ میں سرزمینِ فلسطین، یتیم بچے اور مظلوم عورتوں کو جنہیں چین و سکون کا ایک لمحہ بھی نصیب نہ ہوا، انکو آپ کے حوالے کرتا ہوں۔ نیز میں اپنے بیوی، بچوں اور اپنی ماں کو آپکی امان میں دیتا ہوں۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ مجھے اپنی بارگاہ میں شہید ہونے والے لوگوں کی صف میں شامل کرے اور میرا لہو میری قوم کی آزادی کا چراغ بنے۔ غزہ کو ہرگر نہ بھولنا۔ اور مجھے اپنی خصوصی دعاؤں میں یاد رکھنا۔
دیکھیں: اسرائیلی کابینہ نے غزہ پر مکمل کنٹرول کی منظوری دے دی